Categories
Media Society تعلیم تہذیب وثقافت دل چسپ سمے وار بلاگ

نسلی تعصب ہمارا “قومی کھیل”

(تحریر: اشرف خان)
پاکستان میں نسلی تعصب کوئی جرم نہیں، بلکہ روایت ہے، شغل ہے اور بعضوں کے نزدیک تو عبادت کا سا درجہ رکھتا ہے۔ اب آپ کرکٹ یا ہاکی بھول جائیں، یہ ہے ہمارا اصل قومی کھیل۔ کراچی کے ہوٹلوں سے لے کر لاہور کے ڈرائنگ روم تک، پشاور کے حجرے سے کوئٹہ کی گلیوں تک، ہر جگہ نسلی لطیفے تیار ملتے ہیں، اور ہر شخص کے پاس کوئی نہ کوئی دقیانوسی فقرہ موجود ہوتا ہے۔
اور سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمیں لگتا ہی نہیں کہ یہ غلط ہے۔ کیوں لگے؟ جو یہ کام کرتا ہے وہ پکڑا نہیں جاتا، بلکہ ایک ہیرو بن جاتا ہے۔ کسی دوسری قوم یا برادری کو نیچا دکھاؤ اور دیکھو کیسے اپنے لوگ تالیاں بجاتے ہیں۔ کچھ تو ایسے ہی “لیڈران” بھی بن جاتے ہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ یہ “رسم” ہے، مگر حقیقت میں یہ بیماری ہے جو وراثت میں ملی ہے۔ ہمارے بڑوں نے ہمیں عزت سکھانے کے بجائے نسلی تعصب کے قصے سنا کر پالا۔ ہر گھر میں بچپن سے نصیحت سنائی گئی: “ان پر بھروسا مت کرنا۔” سو ہم نے سبق اچھی طرح یاد کر لیا۔ اب یہ عادت نہیں، جبلت بن گئی ہے۔
ٹی وی پر البتہ ہم سب ‘ڈراما’ کرتے ہیں۔ یومِ آزادی پر سبز سفید کپڑوں میں ملبوس ہو کر “ہم سب ایک ہیں” کے نعرے لگاتے ہیں۔ لیکن گھروں میں ہر کوئی اپنی اپنی نسل کے قصیدے پڑھتا ہے اور دوسروں پر طعنے کسنے کا سامان تیار رکھتا ہے۔ اور یہ سارے تعصبات، جن کی کوئی بنیاد ہی نہیں، معاشرے کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہے ہیں۔
رِزوان دادا ہی کو لے لیجیے۔ اس کے خلاف کارروائی ہوئی بھی تو صرف دکھاوے کی خاطر۔ اسے نکالا گیا تاکہ کچھ لوگوں کو ٹھنڈ پڑے۔ مگر سب جانتے ہیں کہ وہ بعد میں یا تو بحال ہو جائے گا یا پھر “سچ بولنے” پر انعام پائے گا۔ یہی ہے ہمارا وطیرہ: سامنے سے سزا، پیچھے سے نوازش۔
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس سے قومیں اپنی غلطیوں پر غور کریں گی؟ جی نہیں۔ کیوں کہ اب نسلی تعصب حادثہ نہیں رہا، یہ ہماری دوسری فطرت ہے۔ دہائیوں سے ہم اس میں پکے ہوئے ہیں۔ کسی کو نسلی طعنہ دینا اب برا بھلا کہنا نہیں، بلکہ جیسے عرفیت رکھ لینا ہے۔
معاشی اور سیاسی نقصان کی بات تو اکثر محفلوں میں ہوتی ہے، مگر سماجی نقصان کا کوئی پیمانہ نہیں۔ ذلت کو کون ناپ سکتا ہے؟ ہم سایے پر بدگمانی کو کون گن سکتا ہے؟ یہ حساب کتاب ممکن نہیں، لیکن ہر روز محسوس ہوتا ہے۔
ہاں، نسلی تعصب شرم ناک ہے، مگر پاکستان میں یہی سب پر غالب ہے۔ اونچے اونچے نعرے لگا کر ہم اپنے تعصبات چھپا لیتے ہیں، لیکن اندر سے ہم سب اپنی “چھوٹی سی برتری” پر نازاں ہیں۔ آخر زندگی میں مزہ ہی کیا اگر اپنے ہی ہم وطن کو کم تر نہ سمجھا جائے؟
قانون تو موجود ہے مگر اس پر عملدرآمد زیادہ تر صرف نصابی کتابوں اور فائلوں تک محدود رہتا ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ “153-اے” بڑے زور و شور سے اعلان کرتی ہے کہ جو کوئی بھی زبان یا قلم سے، اشارے یا نمائندگی کے ذریعے مذہب، نسل، جائے پیدائش، سکونت، زبان، ذات یا برادری کی بنیاد پر نفرت، عداوت یا بدگمانی کو ہوا دے گا، اسے پانچ سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ سننے میں کتنا شاندار قانون لگتا ہے! لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ قانون کتابوں میں سڑتا رہتا ہے اور نسلی تعصب و لسانی گالیاں سیاسی جلسوں، میڈیا ٹاک شوز اور ہماری روزمرہ کی گپ شپ میں کھلم کھلا بکھیری جاتی ہیں۔ گویا یہ عمل جرم نہیں، بلکہ قومی کھیل ہے، جو ہم بڑے جوش و خروش اور حب الوطنی کے جذبے سے کھیلتے ہیں، ایسا کھیل جس میں نہ گیند ہے، نہ بلّا، مگر چوکے چھکے صرف گالیوں اور طعنوں سے بنتے ہیں۔
.
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights