تحریر : سعد احمد
جب سے وفاقی حکومت نے گورنر سندھ کے لیے ایم کیوایم کی سابق سینٹیر اور ڈپٹی کنوینر نسرین جلیل کا نام طے کیا ہے، تب سے ’سوشل میڈیا‘ پر کچھ حلقوں کی طرف سے عجیب وغریب تنقید کا سلسلہ جاری ہے، جو کم سے کم میری سمجھ سے تو بالاتر ہے۔ میں خود بھی ایم کیو ایم کے بہادرآباد سمیت اس کے مختلف دھڑوں پر تنقید کرتا رہتا ہوں۔ لیکن یہاں یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آخر نسرین جلیل جیسی سنجیدہ، بردبار پروقار اور غیر متنازع قسم کی خاتون سے آخر ایم کیوایم ہی کے کچھ ناراض حلقوں جن میں ’پی ایس پی‘ اور فاروق ستار گروپ کے لوگ سرفہرست ہیں، آخر کیا مسئلہ ہے۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ جب گورنر سندھ کے لیے سابق میئر اور منہ پھٹ وسیم اختر کا نام لیا جارہا تھا تو یار لوگ کہہ رہے تھے کہ اور کئی نہیں ملا، ایسا متنازع آدمی گورنر بنا رہے ہیں۔
تب بہت سے لوگ کنوینر بہادرآباد ایم کیو ایم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا نام لے رہے تھے، کچھ فروغ نسیم کا نام لے رہے تھے۔ جب کہ خالد مقبول تنظیمیں ذمہ داریوں پر ہیں، ایم کیو ایم کی یہ روایت نہیں رہی ہے کہ تنظیم کے مرکزی عہدوں کے ساتھ کوئی حکومتی عہدہ بھی رکھا جائے، ورنہ اسے سابق کنوینر ڈاکٹر عشرت العباد کی طرح تنظیم سے رخصت لینی پڑتی ہے، اس لیے خالد مقبول اس عہدے کے لیے نہیں آسکتے تھے، رہے بیرسٹر فروغ نسیم تو بہادرآباد گروپ میں وہ اپنی ہی تنظیم کے نظم وضبط پر کاربند نہیں رہتے، اس لیے بہادرآباد گروپ قطعی طور پر انھیں آگے نہیں کرسکتی۔ پھر عامر خان کا نام لیا گیا اور کشور زہرا اور عامر چشتی کے نام بھی تجویز ہوئے ۔ ظاہر ہے عامر خان نہایت متنازع تنظیمی شخص ہیں، تازندگی ان پر ’حقیقی‘ کا داغ لگا رہے گا، رہے عامر چشتی تو پھر ان کے لیے بھی اعتراضات موجود تھے کہ وہ مبینہ طور پر تنظیم کے اندر پناہ گزین سے ہیں، یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ یہی بات کشور زہرا کے لیے ہے، اندر کے لوگ انھیں بھی کسی اور کا آدمی سمجھتے ہیں۔ اب لے دے کر نسرین جلیل ایک بہت امکان رہ گیا تھا۔ جیسے ہی وفاقی حکومت نے ان کا نام منتخب کیا ویسے ہی ان کی عمر کو لے کر بے جا تنقید کی جانے لگی ہے، کہ 78 سالہ خاتون کیا کریں گی اور کیا ایم کیوایم بہادرآباد میں اور کوئی نہیں ہے۔ تو خود بتائیے کہ کیا یہ تنقید کتنی جائز ہے؟
دراصل یہ تنقید برائے تنقید کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، اگر وسیم اختر، عامر خان، کشور زہرا اور عامر چشتی کا نام چُنا جاتا، تب تو اور بھی زیادہ طنز کے تیر برساتے۔ شاید انھیں یہ قلق ہے کہ اگر فاروق ستار یا مصطفیٰ کمال اگر بہادرآباد گروپ میں ہوتے، تو آج گورنر وہی بنائے جاتے! اس کے سوا تو اور کوئی تُک نظر نہیں آرہی نسرین جلیل پر تنقید کی۔ ویسے ابھی نسرین جلیل کے نام مقتدر حلقوں کے لیے قابل قبول ہونے کے حوالے سے خدشات چھانے لگے ہیں، اب دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، لیکن خوامخواہ کی تنقید کرنے والے بونے ضرور بے نقاب ہوگئے ہیں، جنھیں ہرحال میں صرف تنقید ہی کرنی ہے، سو وہ کر رہے ہیں۔
Categories