تحریر: رضوان طاہر مبین
اس ’مشتِ خاکی‘ میں اگر کوئی گُن ہے، تو وہ صرف اللہ کے کرم کا نتیجہ ہے، اس کے بعد والدین کی تربیت اور دعاﺅں کے ساتھ ہماری زندگی میں آنے والے ان تمام معززاساتذہ کے صدقے ہے۔ ہمارے لیے لازم ہے کہ اس مرحلے پر یہاں کم از کم ان کا نام لے کراظہار تشکر کیا جا سکے۔ جس کا سلسلہ قمر سلطانہ باجی سے شروع ہوتا ہے، جنھوں نے اسکول میں داخلے سے بھی پہلے ہمیں ہاتھ پکڑ کر لکھنا سکھایا۔ اس کے ساتھ ساتھ کلام پاک کے زیر، زبر پیش کا درک ”خالہ“ (مرحومہ) کے پاس پڑھ کر حاصل ہوا، درمیان میں ایک اور خاتون استاد بھی مقرر ہوئیں، جن کا نام ہمیں نہیںیاد رہا، پھر تکمیل قرآن مجید قاری خلیق الرحمن کے پاس ہوئی اور پھر قاری خلیل اور قاری عبداللطیف کے پاس اِسے دُہرانے کی سعادت حاصل ہوئی۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمارے نجم دہلی بوائز پرائمری اسکول کے چھے برسوں میں مس ہما، مس عابدہ، مس راحت، مس شہلا قیصر، مس روبی، مس غزالہ، مس نصرت، مسر رخسانہ بیگ، مس رضوانہ ناز، مس رضوانہ تبسم، مس افشاں، مس قافیہ، مس شازیہ، مس صبیحہ، مس نوشابہ، مس شائستہ، مس ثروت، مس مسرت، مس زیبا، مس ثمینہ، مس علینہ، مس رانی ، مس میادہ، اور مس فریدہ وغیرہ کی محنت ومشقت حاصل رہی۔
پھر اسمٰعیل اللہ والا سیکنڈری اسکول پہنچے، تو یہاں بِتائے گئے پانچ برسوں میں سر سلیم منصوری(مرحوم)‘ سر شاہ نواز (مرحوم)، سر نفیس الرحمن، سر وکیل، سر اخلاص، سر حفیظ الرحمن‘ سراکبر ‘سر وحید ‘سر محمد عرفان، سرشریف، سر منظور، سر حسین، سر قیصر، سر مقصود، سر عاصم، سر اے ڈی اعوان، سر جاوید عالم، سر صادق، سر امتیاز،سر رفیق قریشی، سر اویس قریشی ، سر حسن رضوی، سر علی رضا، سر انور مسعود، سر عطا اللہ ، سر عطاالرحمن اور سر آفتاب وغیرہ کی محنت پائی۔
میٹرک کے بعد جب چار برس کے لیے گورنمنٹ اسلامیہ آرٹس و کامرس کالج پہنچے، تو یہاں سید مہدی حسن زیدی ،عامر سبحانی ،غلام سرور ، ڈاکٹر ثنا اللہ، میڈم طلعت، خیال آفاقی، زاہدحسین، سر فخر الدین، سر طارق، میڈم شاہین ناز انصاری، میڈم نصرت حق، ریحان عزیز، ڈاکٹر ظفر، سر انیس الثقلین (مرحوم) وغیرہ جیسے اساتذہ ملے۔
جب ’جامعہ اردو‘ میں ایم اے کا مرحلہ ہوا تو یہاں ڈاکٹر توصیف احمد خان، ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر، سر یاسر رضوی(وحید الرحمن)، سر مسعود احمد خان، پروفیسر سلیم مغل، پروفیسر اوجِ کمال، ڈاکٹر مسرور خانم، زرین اختر، ہما وارث، سیدہ نقوی، عرفان عزیز جیسے اساتذہ میسر آئے۔ اس کے بعد جب ’ایم فل‘ کے لیے ’جامعہ کراچی‘ پہنچے تو یہاں ڈاکٹر نثار زبیری، ڈاکٹر طاہر مسعود اور ڈاکٹر رفیعہ تاج کے ساتھ ایک بار پھر ڈاکٹر یاسر رضوی (مرحوم) جیسے اساتذہ سے زانوئے تلمذ طے کرنے کا موقع ملا۔
ٹیوشن یا ’کوچنگ‘ وغیرہ کی بات کی جائے تومرحومہ عقیلہ باجی، دیبا باجی، آمنہ باجی، بانو باجی،نفیسہ باجی، سرفرحان، سر عدنان اور ایک بزرگ استاد اور تھے، جن کا نام ذہن میں نہیں آرہا، اس کے ساتھ ساتھ ’ڈومینو سینٹر‘ (ڈیفنس) میں سر ولی شفیع، سر کاشف، سر ذیشان، سر وسیم، میڈم عظمیٰ احمد اور میڈم شبنم سے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ غالباً تین اساتذہ سے کمپیوٹر کے رموز بھی سیکھے،لیکن اب ان کی شبیہ دھندلا چکی ہے اور نام یاد نہیں رہے!
ہماری باقاعدہ تعلیم کے سلسلے میں یہ 100 سے زائد باقاعدہ اساتذہ تو وہ ہیں، جن سے ہم نے مختلف تعلیمی مدارج کے دوران باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور جوکسی نہ کسی حوالے سے آج ہمیں یاد ہیں، جب کہ یقینا اس عرصے میں بہت سے ایسے اساتذہ بھی ہوں گے کہ جو ہماری یادداشت میں محفوظ نہیں، ان کا بھی شکریہ اور ہماری زندگی کے غیر رسمی استاد اور زندگی کی ’متاعِ عزیز‘ والدین کا بھی مکرر شکریہ، پھر اماں (نانی مرحومہ) اور اپنی مرحومہ پھوپھی جان سے بھی اظہار تشکر، جن کی تربیت نے بھی اس خاکسار کی شخصیت پر بہت اچھے اور اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اس کے علاوہ ’ہمدرد فاﺅنڈیشن‘ کے بانی اور ممتاز دانش وَر حکیم محمد سعید کی درجنوں کتب سے بھی ہمیں بہت رہنمائی ، ملی، ان کے سیاسی، سماجی اور فکری استدلال سے بھی ہم نے بہت کچھ سیکھا۔
اپنی تحریریں بھیجنے کے لیے ای میل نوٹ فرما لیجیے
samywar.com@gmail.com