سمے وار (خصوصی رپورٹ)
الطاف حسین کی سیاست میں واپسی؟
سینئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں ابھی بہت مشکل ہے، 2013ء ٹرننگ پوائنٹ تھا، جب کراچی میں تحریک انصاف کو ووٹ پڑنے پر وہ ردعمل دکھانے کی کیا ضرورت تھی، رابطہ کمیٹی کے ارکان کو بے عزت کیا گیا۔ اس سے پہلے عامر خان نے واپسی کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی تھی، یہ دو موقع ایسے آئے کہ الطاف حسین کو رئیلائز کرنا چاہیے تھا۔ 2008 میں جب ذوالفقار مرزا وزیر داخلہ بنے اور لیاری گینگ وار بنی اور قتل وغارت شروع ہوئی۔ رحمن ملک درمیان میں پڑتے اور ’جنگ بندی‘ ہو جاتی۔ حکومت میں واپس جانے کے حوالے سے متحدہ نے ریفرنڈم کرایا، کہ واپس جانا چاہیے یا نہیں۔ اس ریفرنڈم کے نتائج نہیں بتائے گئے، کیوں کہ اس کا نتیجہ انکار میں تھا، لیکن وہ حکومت میں واپس چلے گئے۔ وہ ایک ابتدا تھی، عامر کی واپسی میں رابطہ کمیٹی نے مخالفت کی تھی، لیکن الطاف حسین نے سمجھایا پھر یہ ہوا کہ انھیں رابطہ کمیٹی میں نہیں رکھا جائے گا، لیکن وہ اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ انیس قائم خانی اور عامر خان کے درمیان کشیدگی تھی۔ 2013ءمیں جو اطلاعات ہیں کہ جان بوجھ کر ایم کیو ایم نے کمزوری دکھائی اور اصل غصہ الطاف کا اس پر تھا۔ کسی حد تک مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہم نے خود تحریک انصاف کے مقابلے میں خود کو ڈھیلا چھوڑا اور اس کو وہ تسلیم کرتے ہیں۔ سب سیٹیں جیت لی تھیں، لیکن نائن زیرو پر ہنگامے سے ان کی فتح کا جشن ماتم میں بدل گیا۔ ووٹ پڑ گیا تھا تو اس سے آپ سیکھتے ہیں پھر 2013ء میں رابطہ کے یہ ارکان ملک چھوڑ گئے، رضا ہارون تھے، کمال اور انیس بھی تھے۔ اس کے بعد جب 2013 کا آپریشن شروع ہوا، تو 2014-2015 میں جنرل راحیل شریف نے گورنر عشرت العباد سے کہا کہ الطاف حسین کو سمجھائیں کہ فوج کے خلاف جو زبان استعمال کر رہے ہیں وہ مناسب نہیں ہے۔ بقول عشرت انھوں نے کہا کہ مجھے جو لوگ سیلوٹ کرتے ہیں وہ گھر جا کر ٹی وی بھی دیکھتے ہیں اور جب اس طرح کی باتیں سنتے ہیں تو توقع کرتے ہیں کہ ان کا کمانڈر انچیف اسے دیکھے۔ اس کے بعد ایک وفد لندن گیا تھا اس وقت شاید کمال بھی ان کے ساتھ تھے۔ الطاف حسین کو سمجھایا اور وہ سمجھ گئے۔ لیکن پھر انھوں نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کے حوالے سے بات کی، جس کے بعد ایک ریڈ کراس لگ گیا اور وہ آج تک برقرار ہے۔ بظاہر نہیں لگتا، لیکن پاکستان کی سیاست میں کوئی بھی چیز ممکن ہے۔
میں نے 2019ءمیں کالم لکھا تھا کہ ”ایک تھی ایم کیو ایم“ وہ آج تک درست نظر آتا ہے۔ میں کسی دھڑے کی بات نہیں کرتا۔ ان کی مضبوط پوزیشن جو تھی اس میں صرف مہاجر نہیں تھے، وہ پڑھے لکھے لوگ تھے۔ بائیکوں اور بسووں میں ’کے ایم سی‘ اور پارلیمان جاتے تھے، وہ اب سب تبدل ہوگیا، وہ تبدیل ہوا تو ایم کیو ایم تبدیل ہوگئی اور اس کے بعد سے واپسی ہوگئی۔
Categories