تحریر: رضوان طاہر مبین
’ایکسپریس‘ کی نوکری کے ساتھ ہم اپنی زندگی سے جھوجھ رہے ہیں، روزی روٹی کے ساتھ زندگی کے دکھ سُکھ سے بھی نبرد آزما اپنی یونیورسٹی کے سیمسٹر سے لے کر ڈاکٹروں اور سرجنوں کی فیسیں، آڑے وقت میں لیے گئے قرض خواہوں کے حساب کتاب، کبھی وکیلوں کے اخراجات، تو کبھی گھر کی ٹپکتی ہوئی چھت کی مرمت کا بندوبست وغیرہ۔
یہ سب کبھی تو اِس محدود تنخواہ سے ہو سکا، مگر پھر ناممکن ہوگیا، سو معاش کی جدوجہد کے مقابل یہ تنخواہ قطعی ناکافی ہوئی تو اور بھی بہتیری مشقتیں اٹھائیں، اس کے جواب میں دفتر سے کبھی تو چُھوٹ ملی، اور کبھی بہت زیادہ اصرار کے باوجود بھی نہ مل سکی! کئی مرتبہ دفتری وقت کم ہونے پر تنبیہات ہوئیں، کئی ایک بار تنخواہ سے پیسے بھی کاٹے گئے!
گذشتہ 12 برس سے ہم ’ایکسپریس‘ سے وابستہ ہیں، لیکن ادارے کی پالیسی کے مطابق ’کنٹریکٹ‘ پر ہیں، یعنی ہماری تنخواہ 11 مہینے بینک میں آتی ہے اور بارہویں ماہ نقد دے دی جاتی ہے، تاکہ ’سند‘ یہ رہے کہ ہم ادارے کے مستقل ملازم نہیں، بلکہ گیارہ، گیارہ ماہ کے ٹھیکے پر کام کرتے رہے ہیں۔ خانہ پُری کرنے کو یہ سلسلہ بہت سے لوگوں کے ساتھ روا ہے، اور ہم بھی گویا 12 سال میں 12 دفعہ ’کنٹریکٹ‘ میں آئے۔ اس طرح ہمارے لیے کسی بھی طرح کی ’گریجویٹی‘ یا ’پرویڈنٹ فنڈ‘ کا کوئی سلسلہ نہیں ہوتا!
اب کچھ بات ہماری تنخواہ کی۔ تنخواہ، جو کسی بھی ملازمت کے لیے ایک اچھی خاصی اہم چیز ہوتی ہے، ہم جب 2012ءمیں ایکسپریس آئے، تو ہم جتنی تنخواہ لے رہے تھے، اتنی ہی تنخواہ پر آئے، فرق صرف یہ تھا کہ روزنامہ ’بشارت‘ میں یہ تنخواہ دو شفٹوں کی تھی، جب کہ ’ایکسپریس‘ میں یہ آٹھ گھنٹے کی ایک شفٹ کا محنتانہ مقرر ہوا!
اُس وقت یہ ایک کافی معقول رقم ہوتی تھی، اس لیے معاشی طور پر بھی بہت بڑی کام یابی محسوس ہوئی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تنخواہ کا معاملہ یہ رہا کہ تنخواہ میں پہلی بار اضافہ تو سمجھیے کہ دو سال بعد جنوری 2015ءمیں ہی ہوگیا اور ساتھ ہی ہم ’سب ایڈیٹر‘ سے ترقی پا کر ’سینئر سب ایڈیٹر‘ بھی ہوگئے! لیکن اس کے بعد تنخواہ میں اگلے اضافے کے لیے ہمیں سات سال کا طویل انتظار کرنا پڑا اور پھر یہ مرحلہ 2022ءمیں طے ہو سکا، بہ الفاظ دیگر آج 2024ءکے آخری دنوں میں موجود ہیں، تو اس حساب سے گذشتہ ڈھائی برس سے کوئی اضافہ نہیں ہوسکا ہے!۔
اگر تنخواہ کا بڑھتی ہوئی مہنگائی سے موازنہ کیجیے اور سونے کی قیمت کو ایک معیار بنائیے، تو 12 سال پہلے اور آج کی تنخواہ میں تقریباً 66 فی صد کمی سامنے آتی ہے، یعنی 2012ءمیں ہم اپنی تنخواہ سے اگر 100 روپے کا سونا لے سکتے تھے، تو آج صرف 33 روپے کا لے سکتے ہیں!
اگر ’ایکسپریس‘ اخبار کی قیمت اور اپنی تنخواہ کا موازنہ کیجیے، تو تب ایکسپریس 10 روپے کا تھا، آج 40 روپے کا ہے۔ اس حساب سے ہماری تنخواہ کوچار گنا ہو جانا چاہیے تھا، لیکن یہ دگنی بھی نہ ہوسکی! اگر اخباری صفحات کے لحاظ سے موازنہ کیجیے، تو دس روپے میں 16 صفحات ہوتے تھے، یعنی کوئی 63 پیسے کا ایک صفحہ پڑتا تھا، جو آج 40 روپے میں 10 صفحات کے حساب سے دیکھیے، تو ایک صفحہ چار روپے کا ہوا، اس طرح 63 پیسے سے تقابل کیجیے، تو یہ چار روپے چھے گنا سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
خیر، یہاں تنخواہ ہر ماہ مل جاتی ہے اور اکثر ابتدائی تاریخوں میں ملتی ہے، اس وقت بھی نصف تنخواہ پہلی اور باقی 15 تاریخ کو مل جاتی ہے، زندگی کی گاڑی دھکیلنے کو دو مرتبہ ہمیں اپنے ادارے سے قرض لینے کی نوبت بھی آئی، جسے بغیر کسی اضافی سود کے کئی ماہ کی اقساط میں ہماری تنخواہ سے منہا کیا جاتا رہا۔
’ایکسپریس‘ کی سب سے اہم بات یہاں ہمیں لکھنے کی پوری آزادی حاصل ہے، باقی یہ کہ جو بات ہم نہیں کہہ سکتے، وہ ہمیں بھی علم ہے اور آپ بھی جانتے ہیں، باقی ہم پر کبھی یہ جبر نہیں ہوا کہ ہمیں کسی کے خلاف یا کسی کی حمایت میں لکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تین مرتبہ تین مختلف بڑے اداروں میں نہیں گئے ، چند ماہ پہلے بھی ہمیں تین گنا تک تنخواہ تک کی لگ بھگ پیش کش ہوگئی تھی، لیکن ہم وہاں کی ممکنہ پابندیوں کا جان کر نہیں گئے، سو شکریے کے ساتھ انھیں منع کر دیا۔ یہ ہمارے لیے مالی طور پر بہت زیادہ گھاٹا ہوا، لیکن کیا کیجیے کہ وہاں جانا ہمارے ضمیر نے گوارا نہیں کیا تھا۔ ساتھ ساتھ آپ کا ایک جاری نوکری چھوڑ کر کسی نئی ملازمت کی طرف جانا ایک خدشات سے پُر مرحلہ ہوتا ہے، آپ کو اپنی زندگی کی ذمہ داریوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کسی ممکنہ اُتھل پُتھل کی صورت میں آپ کہاں کھڑے ہوں گے، اور پھر ایکسپریس کے دفتر کی گھر سے مسافت کم ہونا بھی ایک اضافی ’خوبی‘ ہی جانیے۔
دوسری طرف جس ’آزادی‘ کی وجہ سے بھی ہم ابھی تک اِدھر اُدھر نہیں گئے، ہمیں اپنی اس آزاد پسندی کی ایک قیمت بھی چُکانی پڑ رہی ہے، یعنی اگر سماج میں 10 طرح گروہ پائے جاتے ہیں، تو اکثر ’یار لوگ‘ کسی نہ کسی گروہ کے ہم رکاب ہیں، تو ان کے بہت سے بیڑے پار ہو جاتے ہیں، لیکن اگر ہم نے اس کے بہ جائے اپنے دماغ کو استعمال کیا، اور ہمیشہ صحیح اور غلط کے چکر میں پڑے رہے، ضمیر کی عدالت سے ڈرتے رہے، تو پھر یہ بھانت بھانت کے سارے کے سارے نام نہاد محب وطن، مولوی، لبرل، قوم پرست، ملحد، انتہا پسند، شہوت پسند، قدامت پرست اور روایت پرست اور نہ جانے کون کون سی فکروں یا مفادات کے اسیر آپ کا جینا حرام کر دیں گے! ’آزادی¿ اظہار‘ کے لیے صرف جان دے دینا ہی تو بڑی قربانی نہیں ہوتی، بلکہ جیتے جی، ہر قدم پر مَرنا، رسوا ہونا، نقصان اٹھانا، عمرِ کا قیمتی وقت تیاگنا، روزی روٹی کے لیے بدستور کٹھنائیوں اور مشکلات سے لڑتے رہنا، اپنے جائز کاموں میں خوامخواہ کی رکاوٹیں جھیلنا، لوگوں میں اچھوت بنا کر رکھ دیے جانا، لعن طعن اور طرح طرح کے الزامات کا مقابلہ کرنا اور معاشی زندگی کے اپنے ’جدوجہد کے وقت‘ کو طویل تر ہوتے ہوئے دیکھنا بھی تو کوئی چھوٹی قربانی نہیں ہوتی! کوچہ¿ صحافت میں ہمارے ہم پیشہ ساتھی کیا کیا گُل نہیں کھلا رہے، لیکن ہم ایسے ’گُلوں‘ کو کھلانا تو ایک طرف، اپنی منطقی، تجزیاتی اور اصولی رائے رکھنے کا خبط جو سوار ہے اس کی قیمت کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔
سو، بس یہی ’مختصر کہانی‘ ہے ہمارے اس 12 سالہ سفر کی!
Categories