Categories
ایم کیو ایم پیپلزپارٹی رضوان طاہر مبین سندھ قومی تاریخ قومی سیاست کراچی مہاجر صوبہ

’کراچی صوبہ‘ یا ’مہاجر صوبہ‘ مانگنا ’غداری‘ نہیں!

تحریر رضوان طاہر مبین

معروف صحافی وسعت اللہ خان نے گیارہ ستمبر 2020ء’ڈان نیوز‘ میں اپنے پروگرام ’ذرا ہٹ کے‘ میں ایک ٹیلی فون کالر کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ صوبے آسمان سے اترے ہوئے ہیں اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی، تو میں اسی سندھ کی مثال دیتا ہوں کہ 1849ءسے 1937ءتک سندھ بمبئی پریزیڈنسی میں ’غائب‘ ہو گیا تھا، اس کا وجود ہی انگریزوں نے ختم کر دیا تھا، اس کے بعد 1937ءمیں بمبئی پریزیڈینسی سے سندھ علاحدہ ہوا۔ 1947ءمیں جب تقسیم ہوئی، تو کراچی کو وفاقی دارالحکومت قرار دے کر سندھ سے الگ کر دیا گیا، پھر وفاقی دارالحکومت پنڈی منتقل ہوا، تو کراچی دوبارہ سندھ میں آگیا۔ اس کے علاوہ ’ون یونٹ‘ میں سارا مغربی پاکستان ہی غائب ہوگیا، کیا سندھ کیا پنجاب یہ چیزیں بدلتی رہتی ہیں، اس کو جذباتی انداز میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ یہ ’جسٹیفائیڈ‘ ہے یا نہیں، فی الحال سندھ میں رہنے والے نسلی گروہوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم، نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں انصاف ہو تو کسی کو نہیں ’کاٹا‘ کہ وہ صوبوں کا مطالبہ کرے۔ اس طرح کی چیزیں ناانصافی سے جنم لیتی ہیں، ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے، باقی سرحد اور دریا کا راستہ آج تک نہ کسی نے روکا ہے اور نہ انھیں تبدیل ہونے سے کوئی روک سکا ہے، دنیا کا کوئی ملک یا خطہ ایسا نہیں ہے، جو اپنی اصل حالت میں موجود ہو، جو سات ہزار سال پہلے کی تاریخ میں تھا، یہ بدلتے رہتے ہیں۔ لہٰذا اسے جذباتی انداز میں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
وسعت اللہ خان کو دو منٹ کی اس گفتگو کے بعد 14 ستمبر 2020ءکو اپنے پروگرام میں تین منٹ کی ایک تحریری معذرت پڑھ کر سنانا پڑ گئی، جس میں تھوڑی سی تمہید کے بعد وہ یہ کہتے ہیں کہ ’میرا جواب نامکمل تھا، الفاظ کے چناﺅ میں احتیاط کی کمی تھی اور تاریخی حوالے دیتے ہوئے میں ان حوالوں کے تمام پہلو دیکھنے میں ناکام رہا، جس کے نتیجے میں میرے بہت سے دوستوں کو یہ محسوس ہوا کہ میں سندھ کی شناخت اور اس کے تشخص کو چیلنج کر رہا ہوں، بات یہ ہے کہ آپ سب کچھ سہہ سکتے ہیں، مگر اپنے کسی قول وفعل کے نتیجے میں اپنی ماں کو غم زدہ نہیں دیکھ سکتے، ایسے موقع پر ہر دلیل اور موقف بے معنی ہو جاتا ہے۔ اور واحد راستہ یہ بچتا ہے کہ آپ ماں کے سامنے سر جھکا دیں۔ میں سیدھے سیدھے سندھ دھرتی سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں، میری کوشش ہوگی کہ اپنی ’کمیونیکیشن‘ زیادہ بہتر بناﺅں، تاکہ دوبارہ ایسی سنگین غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ میرے نزدیک سندھ ایک جغرافیے کا نہیں ایک قومی وحدت کا نام ہے۔ اس وحدت میں ہر وہ قبیلہ، برادری اور گروہ شامل ہے، جس نے اسے اپنا وطن بنایا۔ بالخصوص گیارہ، بارہ سو برس میں یہ کئی جغرافیائی اور انتظامی بحرانوں سے گزری، لیکن کوئی آزمائش اس قومی وحدت کو پارہ پارہ نہ کر سکی، حالاں کہ جمعے کو میرے جواب میں کراچی کا کوئی ذکر نہ تھا، پھر بھی میرے ایک ’محسن‘ نے اپنے رسالے میں رائے عامہ کا ایک سروے کرا دیا کہ وسعت اللہ نے کراچی کو جو صوبہ بنانے کی بات کی ہے، اس پر آپ کیا کہتے ہیں؟ جہاں تک کراچی کا سوال ہے، تو میرا یہ ماننا ہے کہ کراچی صرف سندھ کا دارلحکومت نہیں، بلکہ سندھ کا چہرہ ہے، چرے کے بغیر جسم اور جسم کے بغیر چہرہ بے معنی ہے۔ چہرہ تروتازہ رہے گا، تو باقی جسم بھی اس سے طاقت حاصل کرتا رہے گا۔‘
آخر میں شکایت کرنے والوں کا حق تسلیم کرتے ہوئے وسعت اللہ خان نے یہ دعا کرائی کہ ’خدا ہم کو ایک دوسرے کو درست تناظر میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، اور پھر ’جیوے پاکستان، جیے سندھ دھرتی!‘ کہتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔
مختلف موضوعات پر نہایت کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرنے والے وسعت اللہ خان نے سندھ میں نئے صوبے کے حوالے سے بات کر کے اپنے ہم عصر صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی اس پر ’خاموشی‘ کا ایک کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی تھی، جسے سندھی قوم سے تعلق رکھنے والوں کے شدید ردعمل نے معذرت کرنے پر مجبور کر دیا! ہمارے خیال میں یہ افسوس ناک ہونے کے ساتھ الم ناک بھی ہے کہ آپ جب سب کے برابر کے بنیادی حقوق اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں، تو کیسے جمہور کے ایک مطالبے پر اپنی زبان سے ’خطِ تنسیخ‘ پھیر سکتے ہیں، لیکن شاید ’دباﺅ‘ کے بعد اتنی گنجائش تھی ہی نہیں کہ وہ اپنی وضاحت میں یہ اصولی موقف ہی دے دیتے کہ صوبے بننے یا نہ بننے کا فیصلہ تو یہاں کے لوگوں کو کرنا ہے۔ یہ کتنی سادہ سی بات ہے، لیکن صورت حال یہ ہے کہ ہم صبح و شام کشمیر سے لے کر دنیا بھر میں جس جمہوریت کے لیے بولتے بولتے تھکتے نہیں، ہماری وہ ساری باتیں کراچی اور ’کراچی والوں‘ کا ذکر آتے ہی کہیں ’گُم‘ ہو کر رہ جاتی ہیں!

٭ اپنے اپنے صوبے مانگنے والے بھی ہمارے صوبے کے مخالف؟
ایک المیہ یہ بھی تو ہے کہ ہمیں پاکستان کے جغرافیے میں دنیا جہاں کے صوبوں کی بات کرنے والے تو اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر نظر آ جاتے ہیں، یا شاید انھیں بہ آسانی موقع مل جاتا ہے، لیکن جہاں کراچی صوبے، جنوبی سندھ صوبے کا ذکر ہو یا کوئی ’مہاجر صوبے‘ کی مانگ سامنے رکھ دے، بس وہیں سارے راستے بند ہونے لگتے ہیں اور ایسی بات کرنے والوں کو ’غداری‘ جیسے انتہائی القابات تک سے نوازا جانا شروع ہو جاتا ہے! شاید یہی وجہ ہے کہ بیش تر مہاجر لکھاری اور قلم کار بھی اس معاملے سے حتی الامکان اپنا دامن بچا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، کیوں کہ انھیں ایک تو اپنی نسلی شناخت کی وجہ سے پہلے ہی ایک عجیب سی ’تنہائی‘ کا سامنا ہوتا ہے، اب ان میں اتنا جگرا اور حوصلہ نہیں ہوتا کہ وہ مہاجر شناخت یا الگ صوبے پر لب کشائی کر کے اپنے لیے مزید ’تنہائی‘ کا سامان کر لیں۔ یہ ’تنہائی‘ اپنے عوام کی جانب سے نہیں، بلکہ ملک کی اکثریت یا پیشہ وارانہ زندگی اور سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) پر دیکھی جاتی ہے، جہاں پاکستان کی مختلف اقوام کی جانب سے ایسے محاذ لگا لیے جاتے ہیں، جس کا سامنا کرنا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ معاشی صورت حال ویسے ہی خراب ہے، اور ایسی سوچ کا اظہار کرنے والوں کو تو نوکری تک پر رکھتے ہوئے ’بریکٹ‘ کر دیا جاتا ہے کہ اسے نہ رکھنا، یہ تو اپنی ’مہاجر شناخت‘ کی بات کرتا ہے! مزے کی بات یہ ہے کہ سندھ کے باشندوں کا اس معاملے میں اعتراض کرنا تو کچھ سمجھ میں بھی آتا ہے، کہ وہ براہ راست اس کے فریق ہیں، لیکن ہماری تقدیر کا فیصلہ لاہور، ملتان اور اسلام آباد سے لے کر کوئٹہ وغیرہ تک میں بیٹھے ہوئے ’دانش وَر‘ بھی برملا کر رہے ہوتے ہیں، حتیٰ کہ اس ملک میں اپنے حقوق، الگ شناخت اور علاحدہ صوبے کے لیے متحرک حلقے تک ہمارے صوبے کی بات آنے پر اگر، مگر اور چوں کہ، چناں چہ کی شرطیں لگا کر اعتراضات کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔

٭ ’مہاجر‘ دانش وَر اپنے لیے بات کرے تو ’متنازع‘ کیوں کہا جاتا ہے؟
دوسری قومیتوں کے ’لبرل‘ اور ’مذہبی‘ ہر دو طرح کے لوگ اپنے ’نظریات‘ کے بھرپور پرچارک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی قومیت کا مقدمہ بھی کھل کر لڑ سکتے ہیں اور ملک کی دیگر قومیتوں کے حقوق کی حمایت بھی کر سکتے ہیں۔ اس سے نہ تو ان کی ’حب الوطنی‘ پر کوئی شک کرتا ہے اور نہ ان کی ’مسلمانیت‘ پر کوئی حرف آتا ہے۔ نہ انھیں ’تنگ نظر‘ اور ’متعصب‘ ہونے جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی کہیں سے ان کے لیے ’غداری‘ جیسے سنگین خطاب جاری ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی کراچی اور ’کراچی والوں‘ کے حقوق اور خودمختاری کا ذکر آجائے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے سارے لفظ کہیں غائب ہو جاتے ہیں اور سارا آہنگ کہیں کھو جاتا ہے، بلکہ یہ الٹا اپنے حق کے لیے بلند ہونے والی ان صداﺅں کی مدافعت میں اپنی ساری توانائیں صرف کرتے دکھائی دینے لگتے ہیں۔
وسعت اللہ خان صاحب کو بھی ایک سادہ سی حقیقت بیان کرنے پر اسی دباﺅ نے ”معافی“ مانگنے پر مجبور کر دیا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کراچی والوں یا مہاجروں کے اس مطالبے کو کسی بھی شکل میں قبول نہیں کیا جاتا؟ اور مہاجر اپنے حق کی بات کرلے تو سماج میں ’متنازع‘ تصور کیا جانے لگتا ہے۔کیوں؟

٭ کسی ’قوم‘ کو مطمئن کرنے کے لیے قوانین بھی بدلے جا سکتے ہیں
سندھ میں نئے صوبے کے حوالے سے ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ نیا صوبہ بننے کے لیے پہلے صوبائی اسمبلی سے قرار داد منظور ہونا ضروری ہے، جو کہ سرِدست ناممکن نظر آتی ہے اس لیے اس مطالبے سے دست بردار ہو جانا چاہیے، پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا لوگوں کو اپنا کوئی مطالبہ کرنے کے لیے پہلے قوانین پڑھنے چاہئیں؟ بھئی، قوانین تو بدلے جاتے رہتے ہیں اور قوانین کا حاصل ہی لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے، تو جب لوگ کسی قانون کو اپنے حقوق کی راہ میں رکاوٹ سمجھیں، تو انھیں کھلے دل سے سننا اور سمجھنا چاہیے۔ پھر ریاست کی جانب سے اپنی لسانی اور ثقافتی اکائیوں کی تلافی اور حقوق کے لیے آئین میں ترامیم بھی تو کی جاتی ہیں، تو آخر ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ ’کراچی صوبے‘ یا ’مہاجر صوبے‘ کے قیام کے لیے بھی گفت وشنید کے بعد کوئی ایسی راہ اختیار کی جائے۔ اب کراچی والے اپنا صوبہ ہی تو مانگ رہے ہیں ناں، جو دنیا بھر میں بہت عام سا مطالبہ ہے، کہیں بھی کوئی صوبہ مانگنے والوں کے پیچھے لٹھ لے کر نہیں دوڑتا، کوئی بھی اس مطالبے کو غداری نہیں کہتا۔ اگر صوبہ مانگنا ’غداری‘ ہی ہے، تو پھر ہمارے آئین میں نئے صوبوں کے قیام کی شق رکھی ہی کیوں گئی ہے؟ خود ہمارے ہم سائے ملک ہندوستان میں کئی صوبے تقسیم کے عمل سے گزرتے رہے ہیں، آخر وہاں کوئی تلواریں سونت کر کیوں کھڑا نہیں ہوتا کہ خبردار! ’یہ تو ہماری دھرتی ماں کی تقسیم ہے!‘

٭ تاریخی طور پر سندھ کا جغرافیہ تبدیل ہوتا رہا ہے
سندھ کی بات کی جائے تو ابتدائی سطروں میں بیان کیے گئے وسعت اللہ خان کا حوالہ ہی دیکھ لیجیے کہ کراچی سندھ کا حصہ کتنا رہا ہے، کراچی کو تو قائداعظم نے سندھ سے الگ کیا تھا، اس سے پہلے یہ شہر تو بلوچستان کا حصہ بھی رہا ہے اور ماضی میں ’سندھ‘ کی سرحدیں تو ملتان اور اس سے بھی آگے تک رہی ہیں، یعنی تاریخ بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جغرافیائی حد بندیاں تو بدلتی ہی رہتی ہیں ہماری تاریخ میں نئے صوبے کے لیے وہی موقع بہتر معلوم ہوتا ہے، جب آزاد بن حیدر کے بقول ’کراچی صوبے‘ کا اعلان ہونے ہی والا تھا کہ کچھ مہاجر دانش ور یہ دُہائی لے کر جنرل یحییٰ خان کے پاس پہنچ گئے کہ ’سرکار، ایسا غضب نہ کیجیے گا، بہت مسئلہ پیدا ہو جائے گا اور یوں ایک مسئلہ حل ہوتے ہوتے رہ گیا کہا جاتا ہے کہ ان مہاجر اکابرین کو ’کراچی صوبے‘ کے ردعمل میں سندھ میں اپنی زمینوں کے چھن جانے کا خوف دامن گیر تھا!

٭ ”کراچی سب کا ہے؟“
بہ ظاہر بہت سادہ سی بات ہے، آئینی طور پر ریاست کے تمام شہریوں کو پورے جغرافیے میں جانے، ملازمت کرنے اور عارضی یا مستقل رہائش اختیار کرنے کا حق حاصل ہے۔ اسی لیے شاید ’پاکستان زندہ باد‘ کے بعد سب سے زیادہ ”مقبول“ ریاستی نعرہ یہی دکھائی دیتا ہے کہ ”کراچی سب کا ہے!“ لیکن بغور دیکھیے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کہہ کر مہاجروں کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے، کیوں کہ یہاں آکر اس ’سہولت‘ سے فائدہ اٹھانے والوں کے اپنے اپنے آبائی علاقے اور صوبے موجود ہیں، وہ ایک طرف مہاجروں کہ شہر میں مستقل نقل مکانی کرکے انھیں اقلیت میں بدل رہے ہیں، تو دوسری طرف انتظامی طور پر بھی ان کے لیے خوف ناک مسائل پیدا کر رہے ہیں ہم جانتے ہیں کہ یہ کراچی کی وہ سچائیاں ہیں، جسے پڑھ کر ایک لبرل شخص بھی تیوری چڑھائے گا اور مذہبی بھی اپنی الگ توجیہہ کے ساتھ بگڑے گا، اور رہا ’محب وطن‘ تو اس کی نظر میں ہم کم ازکم متعصب تو قرار پائیں گے ہی لیکن ذرا ٹھنڈے دل ودماغ سے جائزہ لیجیے، اگر آپ کھلے دل سے ’مہاجر‘ کو اس دیش کی اسی طرح ایک لسانی اکائی مانتے ہیں، جیسے باقی سب ہیں، تو پھر کیا اس کا یہ حق نہیں ہے کہ اس ریاست میں کوئی شہر اس کا اپنا ہو، جسے وہ اپنا گھر اور ’ہوم گراﺅنڈ‘ سمجھے؟ جہاں اس کی اکثریت کو اقلیت میں بدل کر اسے ثقافتی معدومیت سے دوچار نہ کیا جائے؟ یہاں بہت سے لوگ دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں گے کہ 1947ءمیں آپ لوگوں کی ہجرت نے بھی تو کراچی میں یہی کیا، یہاں کے بڑے نسلی گروہوں کو اقلیت میں بدل دیا، تو ان کی اس بات کا جواب تاریخ اور بانیان پاکستان کی جانب جاتا ہے۔ اس میں ہجرت کرنے والوں کا بالکل بھی کوئی دوش نہیں ہے ہمارے دانش وروں کی انتہا پسندی کا تو یہ عالم ہے کہ وہ 1930ءکے کراچی کی تصویر لگا کر کہتے ہیںکہ دیکھو جب مہاجر ہندوستان میں تھے، تو کراچی کتنا خوب صورت تھا یعنی 1930ءمیں مہاجر ہندوستان میں تھے اور شاید کراچی میں پاکستان بن گیا تھا؟؟ یہ ہمارے نام نہاد ’باشعور‘ لوگوں کے رویوں کی صرف ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ اس کے ساتھ یہ استدلال بھی ہوتا ہے کہ مہاجر بھی باہر سے آگئے، تو اب بھی سب اسی طرح آتے رہیں، مہاجروں کا اس پر کسی اعتراض کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ بھی وہی سوچ ہے کہ جو ہندوستان کے اقلیتی صوبوں سے آنے والوں کو ’تارکین وطن‘ ’فساد زدہ‘ یا ’پناہ گزین‘ سے زیادہ کچھ تصور نہیں کرتی، تبھی وہ کراچی پر مہاجروں کا اولین حق تسلیم کرنے سے گریزاں رہتے ہیں، جب کہ اس کی واضح دلیل یہ موجود ہے کہ باقی لسانی اکائیوں کے اپنے اپنے علاقے موجود ہیں، جب کہ مہاجروںکا جینا مرنا اسی شہر کے ساتھ ہے اس لیے ان کا کراچی پر پہلا حق تسلیم کیا جانا چاہیے! الگ صوبے کا ذکر ہو تو ہمارا ’دانش ور‘ اگر کسی سطح پر سندھ میں نئے صوبے کی بات کر بیٹھے، تو ایک سرد سے لہجے میں انتظامی کی ایک ’پخ‘ لگانا اور ’لسانی‘ کی مدافعت کرنا ضروری سمجھتا ہے! آخر کیوں؟ جب سب لسانی اکائیاں ایک حقیقت ہیں اور ہم صوبہ سرحد کو بھی انھی کی قوم کا نام دیتے ہیں، تو پھر آخر حرج ہی کیا ہے؟ وہ بولتے ہیں کہ دیکھو کراچی میں اب انتے لاکھ فلاں اور اتنے اتنے لاکھ فلاں، فلاں قوم کے لوگ بھی بس گئے ہیں اور اب اگر ’لسانی‘ صوبے کی بات کرو گے تو تمہیں صرف ضلع ’وسطی‘ یا ضلع ’کورنگی‘ ہی ملے گا! یعنی آپ ہمارے اہل قلم وفکر کی ’گنجائش‘ کا اندازہ لگائیے۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے بہت سے حلقے اس امر کی حمایت کرتے ہیں کہ بلوچستان بنیادی طور پر بلوچوں کا صوبہ ہے، اس لیے انھیں اقلیت میں نہیں بدلنا چاہیے اور مختلف قوانین نافذ کر کے ان کے حقوق کا تحفظ کیا جانا چاہیے، جیسا کہ وہاں دیگر صوبوں سے آنے والوں کو ایک مخصوص عرصے تک مستقل رہائش کے بعد ہی بلوچستان میں ووٹ کا حق دیا جائے وغیرہ۔ لیکن جب کراچی کی بات آتی ہے، تو انھیں مہاجر تشخص کے تحفظ کے لیے ایسے کسی کلیے کو لاگو کرتے ہوئے پریشانی ہونے لگی ہے۔ بلکہ بہت سے ’دانش ور‘ تو اس امر پر اپنے اطمینان کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ کراچی کو اصل کما کر دینے والا ضلع ’جنوبی‘ مجموعی طور پر مہاجر اکثریت سے محروم ہوگیا ہے، یعنی وہ ہر ایسے واقعے اور معاملے کو جو مہاجروں کو پَس پا کر رہا ہو، اپنی دلیل بنانے لگے ہیں، کیوں کہ بنیادی طور پر شاید انھیں یہ پسند نہیں کہ مہاجر یہاں اپنے تشخص اور خودمختاری کے ساتھ تمام ریاستی حقوق سے استفادہ کر سکیں، مجھے نہیں پتا اس کی کیا وجہ ہے؟
اب آجائیے کراچی میں بڑھتی ہوئی نقل مکانی کے کچھ زمینی حقائق پر، یہاں ہم مردم شماری کے صحیح اور غلط ہونے کے معاملے میں بالکل نہیں پڑیں گے، صرف اس مشاہدے کی بات کریں گے، جو لگ بھگ سبھی نے کیا ہوگا، ایک لمحے کے لیے کسی بھی لسانیت سے بالاتر ہو کر یہ سوچیے کہ یہاں روزگار کے لیے آنے والے افراد شہر کی سڑکیں، گلیاں، ٹرانسپورٹ، پانی، نکاسی، بجلی اور گیس سے لے کر صحت اور تعلیم وغیرہ تک میں کہیں نہ کہیں ’نقب‘ لگا رہے ہیں ٹھیک ہے ناں! اور اس سے شہر میں ان تمام چیزوں کی کمی اور بحران پیدا ہو رہا ہے یا پھر ان کے معیار کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے اب اس سے وہ کراچی والا، جس کی صرف لالو کھیت جیسی مارکیٹ پورے لاہور شہر سے زیادہ ٹیکس دے رہی ہو، وہ بھی گزرے، تو یہ آخر دنیا کے کس قانون میں لکھا ہوا ہے؟؟ اس پر ستم یہ کہ وہ اگر آہ بھی کرے، تو پوری ریاست میں ہاہاکار مچ جاتی ہے، بہت سے لوگ دبی دبی سی مسکراہٹ کے ساتھ کراچی کے رقص بسمل سے لطف لیتے ہیں یا پھر ان کے حقوق کے لیے ہونے والی باتوں کی بلاواسطہ یا بلواسطہ کاٹ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ 2015ءکی ایک بہت سیدھی سی مثال دیکھ لیجیے، تباہ کن گرمی سے کوئی ایک ہفتے، دس تک شہر میں صحت کا نظام عملاً منہدم رہا لوگ اپنے پیاروں کو لے کر کلینک اور اسپتالوں میں صرف ایسی جگہ کی تلاش میں پھرتے رہے، جہاں ان کے مریض کو ایک ڈرپ لگ سکے، شہر کے اسپتالوں کی پارکنگ تک میں مریض پڑے کراہ رہے تھے۔ اب کراچی میں یہ آفت مجموعی طور پر تھی، اس میں نہ کوئی سیاسی جماعت ملوث ہو سکتی تھی اور نہ ہی کسی ایک لسانی گروہ پر عتاب ٹوٹا تھا۔ ہر نسلی گروہ کے لوگ برابر متاثر ہوئے، اس کے باوجود بھی اگر ہم یہ آواز بلند کریں کہ کراچی میں فوری طور پر کم ازکم درجن بھر بڑے اسپتالوں کی ضرورت ہے، یہاں کسی
بڑی قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے بڑے اور منظم ادارے بننا چاہئیں، تو ہمیں اس بات تک کو منوانے میں مشکل پیش آتی ہے۔
(مضمون نگار سے ٹوئٹر پر رابطہ :@RizwanTahirMbin)
٭٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *