تحریر: سعد احمد
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے گذشتہ دنوں ارشاد فرمایا ہے کہ کوئی بھی جماعت غدار اور اس کے کارکنان ملک دشمن نہیں ہیں، لیکن انھیں چاہیے کہ کراچی میں اپنے حلقہ انتخاب کی بھی کچھ خبر لیجیے جہاں سے وہ دو مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔
ماجرا کچھ یوں ہے کہ رواں ماہ (مئی 2023) ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کے ڈیفنس کلفٹن سیکٹر کے یونٹ نمبر چھے کے لاپتا کارکن محمد زبیر کو لاپتا ہوئے ہوئے پورے 10 سال پورے ہوگئے ہیں۔ جی ہاں پورے دس سال۔ محمد زبیر کو مئی 2013ءمیں اس وقت نامعلوم افراد نے حراست میں لیا تھا، جب کراچی میں اس وقت کے قومی اسمبلی کے حلقوں کے مطابق این اے 250 اور آج کل کے حلقہ نمبر 247 میں کچھ پولنگ اسٹیشن پر دوبارہ پولنگ کا عمل جاری تھا اور ’ایم کیو ایم‘ نے اس ’ری پولنگ‘ کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ اس حلقے میں 11مئی 2013ءکے عام انتخابات کے موقع پر نامعلوم وجوہ کی بنا پر بے نظمی پائی گئی تھی اور بہت سے پولنگ اسٹیشنوں میں پولنگ کا عملہ نہیں پہنچ سکا تھا۔ جس پر الیکشن کمیشن نے حلقے کے کچھ پولنگ اسٹیشنوں میں ری پولنگ کا حکم دیا تھا، جب کہ ایم کیو ایم کا مطالبہ تھا کہ پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کرائی جائے، جب الیکشن کمیشن نے یہ مطالبہ نہیں مانا تو ایم کیو ایم نے ری پولنگ کا بائیکاٹ کردیا اور آج کے صدر مملکت بہ آسانی رکن قومی اسمبلی بن گئے تھے۔ 2013ءکے انتخابات میں کراچی سے یہ واحد حلقہ تھا، جہاں سے تحریک انصاف کو فتح حاصل ہوئی تھی، تاہم مجموعی طور پر شہر بھر سے تحریک انصاف کو آٹھ سے ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب ووٹ پڑا تھا، جسے تجزیہ کار شہر کے سیاسی مزاج میں ’تبدیلی‘ قرار دے رہے تھے، لیکن ’ایم کیو ایم‘ نے اس ’تبدیلی‘ کی شدید مزاحمت کی تھی اور 2015ءمیں عزیز آباد کے ضمنی انتخابات میں کنور نوید نے 90 ہزار سے زائد ووٹ لے کر تحریک انصاف کے عمران اسمعیل کو ایک بھاری مارجن ہرایا تھا اور اسی برس دسمبر میں کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو فورسز کی کڑی نگرانی اور جماعت اسلامی سے سیاسی اتحاد کے باوجود مکمل طور پر شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔
کراچی اور ملک کے سیاست اور سیاسی حالات تو آگے بڑھ گئے۔ کئی حکومتیں بھی بدلتی چلی گئیں، ’ایم کیو ایم‘ کے حالات بھی آج پہلے سے یک سر مختلف ہو چکے ہیں، اس کے بھی اب کئی دھڑے بن چکے ہیں۔ مارچ 2016ءمیں مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے ’نئی سیاست‘ کا اعلان کرکے بہت سے لاپتا سیاسی کارکنان کو بازیاب کرایا۔ جسے سیاسی مخالفین نے سیاسی جبر کا نتیجہ قرار دیا۔ پھر 23 اگست 2016ءکو ایم کیو ایم کو اپنے قائد الطاف حسین سے علاحدگی کا اعلان کرنا پڑا، پھر مختلف مراحل آتے رہے، رواں برس مصطفیٰ کمال کا گروپ ’پاک سرزمین پارٹی‘ فاروق ستار کی ’ایم کیو ایم بحالی کمیٹی‘ اور ’بہادر آباد گروپ‘ ایک چھتری تلے جمع ہوگئے۔ بہت سے اسیر اور لاپتا کارکنان کے حوالے سے اچھی اور بری خبریں بھی وقتاً فوقتاً آتی رہیں، لیکن ایم کیو ایم ڈیفنس کلفٹن سیکٹر کے محمد زبیر کے بارے میں کچھ پتا نہ چل سکا، اور نہ ہی اسے ابھی تک کسی عدالت میں پیش کیا جا سکا ہے، زبیر کی گم شدگی کے دوران اس کے والد بھی اس دنیا سے گزر چکے ہیں، خاندان میں کتنے تہوار گزر چکے ہیں، لیکن محمد زبیر کے اہل خانہ آج بھی زبیر کی واپسی کی راہ تک رہے ہیں، انھیں آج بھی اللہ سے امید ہے کہ زبیر خیر خیریت سے ہوگا اور جلد ہی وہ اپنے گھر لوٹ آئے گا، ان کا یہ انتظار 10 برس بعد بھی جاری ہے اور نہ جانے مزید کب تک جاری رہے گا؟
اگر صدر عارف علوی اپنے قول میں سچے ہیں تو پھر اپنے شہر کے تمام نہ سہی کم سے کم اپنے حلقے کے ہی دس برس سے لاپتا اس سیاسی کارکن ہی کو بازیاب کرادیں!
Categories