تحریر: مبشر علی زیدی
ہت سے لوگ مستقل طور پر امریکا آنا چاہتے ہیں لیکن انھیں اس کا طریقہ نہیں معلوم۔ اکثریت کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح وزٹ ویزا لگوالیا جائے اور یہاں آکر اسائلم لے لیں۔ کوئی شک نہیں کہ ماضی میں ہزاروں افراد کو اس میں کامیابی ہوئی ہے۔ لیکن ایک تو امریکی ویزا افسر سختی کرتے جارہے ہیں، دوسرے وزٹ ویزا ملنے میں کامیابی اور اسائلم اپلائی کرنے کے درمیان اور بعد میں بہت مشکلات بھگتنا پڑتی ہیں۔ بڑی تعداد میں ایسی درخواستیں مسترد کردی جاتی ہیں۔ مسترد نہ بھی ہوں تو کئی کئی سال سماعت نہیں ہوتی۔ اگر آپ اپنے اہلخانہ کو ساتھ نہیں لائے تو درخواست کی منظوری تک یعنی برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنھیں پندرہ پندرہ سال ہوگئے اور گرین کارڈ نہیں ملا۔
گرین کارڈ کیا ہوتا ہے؟ یہ مستقل قیام کا اجازت نامہ ہے۔ اس کی مدت دس سال ہوتی ہے۔ اگر آپ چاہیں تو پانچ سال بعد امریکی شہریت کے لیے اپلائی کریں اور امریکی شہری بن جائیں۔ نہ چاہیں تو دس سال بعد نیا گرین کارڈ حاصل کرلیں۔ اگر آپ گرین کارڈ لے کر چھ ماہ سے زیادہ عرصہ امریکا سے باہر رہیں تو واپسی پر مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ گرین کارڈ منسوخ بھی کیا جاسکتا ہے۔
بہت سے لوگ میکسیکو کی سرحد سے غیر قانونی طور پر امریکا میں گھس جاتے ہیں۔ انھیں قانونی طور پر امریکا آکر اسائلم مانگنے والوں کے مقابلے میں بہت زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈریمر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہ وہ لاکھوں افراد ہیں جنھیں ان کے والدین اپنے ساتھ غیر قانونی طور پر امریکا لائے تھے۔ ان کا کوئی قصور نہیں تھا اور اب یہ امریکی معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں۔ انھیں نکالا نہیں جارہا، تعلیم اور ملازمت کے مواقع بھی دے دیے گئے ہیں لیکن امریکی شہری نہیں بنایا جارہا۔
غیر قانونی طریقے سے امریکا آنے والے پاکستانی کم ہیں یا شاید بالکل نہیں ہیں۔ کسی پاکستانی کو ایسی کوشش ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔
امریکا میں مستقل قیام حاصل کرنے کا ایک طریقہ ویزا لاٹری تھا۔ میرے کئی دوست اور ایک کزن اس طریقے سے امریکا آئے۔ لیکن بہت سال پہلے پاکستان کو ان ملکوں کی فہرست سے نکالا جاچکا ہے جن کے افراد کو لاٹری میں شرکت کی اجازت ہے۔ امریکی امیگریشن حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ فیملی امیگریشن ہے۔ یعنی آپ کے خاندان کا کوئی فرد امریکی شہری ہو تو وہ آپ کی امیگریشن اسپانسر کرسکتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو اور بہن بھائی اپنے بہنوں بھائیوں کو امریکا بلاسکتے ہیں۔ وقت گزارنے کے ساتھ ایسے افراد کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے اور اس میں بھی پندرہ پندرہ بیس بیس سال لگ رہے ہیں۔
گرین کارڈ ہولڈر سے شادی بھی ایک طریقہ ہے۔ لیکن میں امریکا میں موجود پاکستانیوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ پاکستان کے بجائے امریکا میں رشتہ کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اب یہاں پاکستانیوں کی کافی بڑی آبادی ہوچکی ہے اور مناسب رشتے مل جاتے ہیں۔ امریکا کاروبار کا تجربہ رکھنے والے اور سرمایہ کاری کرنے والوں کو بزنس ویزا دیتا ہے۔ اس ویزے پر بھی امیگریشن ممکن ہے۔ لیکن اس کے آپ کو ہائی نیٹ ورتھ ہونا چاہیے۔ ایسا ہی طریقہ امریکا میں تعلیم کا ہے۔ لیکن اسکالرشپ حاصل کرنا یا اپنی جیب سے فیس دینا بے حد مشکل ہوچکا ہے۔ اسکالرشپ لاکھوں میں کسی ایک کو ملتی ہے۔ فیس اس قدر بڑھ چکی ہے کہ یورپ تک سے طالب علموں کی تعداد گھٹ گئی ہے۔
پھر پاکستان سے امریکا آنے کے خواہش مند عام لوگ کیا کریں؟ کیا ان کے لیے کوئی طریقہ نہیں؟
ایک طریقہ ہے۔ وہی، جو میں نے اختیار کیا۔ اپنے شعبے میں ملازمت تلاش کریں، اچھے اداروں میں درخواست دیں، انٹرویو پاس کریں اور ورک ویزا حاصل کرلیں۔
یہ مشکل ضرور ہے کہ ہر شعبے میں غیر ملکیوں کی مانگ نہیں۔ آئی ٹی انڈسٹری کی ٹاپ کمپنیوں نے حال میں ہزاروں افراد کو نکالا ہے۔ ان میں غیر ملکی بھی تھے جنھیں واپس جانا پڑا ہے۔ ورک ویزے کی ایک مشکل یہ ہے کہ آپ کو جس کمپنی نے اسپانسر کیا ہے، ایک خاص مدت تک آپ اس کے سوا کسی اور کمپنی کے لیے کام نہیں کرسکتے۔ اگر اس مدت سے پہلے ملازمت ختم ہوجائے تو واپس جانا پڑتا ہے۔
میں آپ کو ایک دو شعبوں کے بارے میں بتاسکتا ہوں جن میں گنجائش ہے۔ قابل افراد ان میں کوشش کرسکتے ہیں۔ مجھے ان دونوں شعبوں کا تجربہ ہے۔
ایک سیکٹر اسکول ایجوکیشن کا ہے۔ یہاں ٹیچنگ لائسنس کے بغیر آپ اسکول میں نہیں پڑھا سکتے۔ لیکن اگر لائسنس حاصل کرلیں تو ملک بھر میں ہزاروں نہیں لاکھوں آسامیاں خالی ہیں۔ لائسنس کیسے مل سکتا ہے؟ آپ کے پاس بی ایڈ یا ایم ایڈ کی ڈگری ہونی چاہیے۔ ورنہ آپ کو دو امتحان پاس کرنا ہوں گے۔ ایک انگریزی کا ٹیسٹ اور دوسرا پریگزس۔ انگریزی کا ٹیسٹ ہر ریاست میں مختلف ہوسکتا ہے۔ ورجینیا میں وی سی ایل اے کے نام سے ہے۔ پریگزس ٹیسٹ درجنوں ہیں۔ آپ جس شعبے کا تجربہ رکھتے ہیں یا جس مضمون کو پڑھانا چاہتے ہیں، اس کا آن لائن امتحان دے سکتے ہیں۔ ایک سے زیادہ امتحان پاس کرلیں تو اچھا ہے۔
جب میں اسکول میں ملازمت کررہا تھا تو وی سی ایل اے اور پریگزس دونوں امتحان پاس کرچکا تھا۔ اس کے بعد چھ ماہ کا ایک کورس ہوتا ہے جس میں صرف دو بار ان پرسن کلاس لینی ہوتی ہے۔ باقی سب آن لائن ہوتا ہے۔ وہ کرنے سے پہلے مجھے ٹی وی میں ملازمت مل گئی اور میں ادھر آگیا۔ لیکن پاکستان میں بیٹھے ٹیچرز کیا کریں؟ اس کورس کے بغیر صرف پریگزس کرنے سے بھی ملازمت مل جاتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ آپ انٹرویو پاس کرلیں۔
دوسرا شعبہ میرا یعنی جرنلزم ہے۔ اگر آپ صرف اردو جرنلزم کرنا چاہتے ہیں تو وائس آف امریکا کے سوا کوئی ادارہ نہیں۔ لیکن انگریزی لکھنے بولنے والوں کے لیے بے شمار ادارے ہیں۔ عام پاکستانی صحافی صرف سی این این، فوکس، سی بی ایس، اے بی سی اور این بی سی کے بارے میں جانتا ہے جو قومی سطح کے میڈیا گروپ ہیں۔ لیکن امریکا میں آٹھ سو سے زیادہ لوکل ٹی وی نیوز اسٹیشن ہیں۔ سیکڑوں نیوز ریڈیو الگ۔ ہزاروں اخبارات اور ویب سائٹس الگ۔
امریکا میں کئی بڑے میڈیا گروپ نیکسٹر، سنکلئیر، اسکرپس، ہبرڈ وغیرہ ہیں جو درجنوں لوکل اسٹیشنز کے مالک ہیں۔ میں نیکسٹر کا ملازم ہوں جو سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس کے پاس دو سو چینل ہیں۔ یہ مزے کی بات ہے کہ ان کے کچھ چینل سی بی ایس سے منسلک ہیں، کچھ این بی سی سے، کچھ فوکس سے۔ ایک شہر میں نیکسٹر کا چینل سی بی ایس سے منسلک ہے اور سنکلئیر کا چینل این بی سی سے۔ دوسرے شہر میں حساب اس کے برعکس ہوسکتا ہے۔ امریکی میڈیا مارکیٹ میں یہ کھیل بہت دلچسپ ہے۔
عام لوکل چینل تو نہیں لیکن بڑے میڈیا گروپ غیر ملکی کو اسپانسر کرسکتے ہیں۔ شرط وہی ہے کہ آپ کا ریزیوما اچھا بنا ہوا ہو، آپ انٹرویو پاس کرلیں اور ایمپلائر پر ثابت کردیں کہ آپ سے اچھا امیدوار اسے نہیں مل سکتا۔
امریکا بہت بڑی مارکیٹ ہے لیکن یاد رہے کہ یہاں امیدوار بھی بہت زیادہ ہیں۔ آپ لنکڈ ان اور ان ڈیڈ پر جائیں اور پسند کی کمپنی میں پسند کی جاب دیکھیں۔ ایک عام جاب کے لیے آٹھ آٹھ سو درخواستیں آجاتی ہیں۔
اگر آپ دھن کے پکے اور لگن کے سچے ہیں تو کوئی رکاوٹ راستے میں حائل نہیں ہوسکتی۔ میری مثال آپ کے سامنے ہے۔ مجھ جیسا اردو میڈیم، لوئر مڈل کلاس کا عام سا تنخواہ دار صحافی امریکا آکر انگریزی کے نیوز چینل میں کام کرسکتا ہے تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔