Categories
Karachi MQM انکشاف ایم کیو ایم پیپلز پارٹی جماعت اسلامی سعد احمد سمے وار- راہ نمائی قومی تاریخ قومی سیاست کراچی

پچاس سال پہلے “نامعلوم افراد” کے ہاتھوں قتل ہونے والے جماعت اسلامی (پنجاب) کے راہ نما

تحریر : سعد احمد
بد اچھا بدنام برا کے مصداق “نامعلوم افراد” کی اصطلاح پہلے کراچی کی ایک سیاسی جماعت کے کھاتے میں بدنام ہوئی، اور پھر کچھ اور لوگ بھی اس کی لپیٹ میں آگئے، حالاں کہ یہ ایک عام اصطلاح ہے کہ جن کی شناخت معلوم نہ ہو اب انھیں نامعلوم ہی لکھنا چاہیے، لیکن کبھی یہ خؤف سے بھی لکھا جاتا ہے، لیکن بدنامی بری چیز ہوتی ہے، اس لیے نامعلوم کی اصطلاح سے بہت بدنامی سمیٹی گئی۔ کراچی کی سیاست اور کراچی کے حالات نے “نامعلوم افراد” کی دونوں قسموں کو خوب سہا ہے، لیکن انصاف کے لیے آج تک مارا مرا پھر رہا ہے۔
آج 8 جون ہے، ڈیرہ غازی خان میں جماعت اسلامی کے رکن ڈاکٹر نذیر احمد کو آج ہی کے دن 1972 میں نامعلوم افراد نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ عجیب بات ہے کہ کوئی 1980 کی دہائی سے پہلے کے ان نامعلوم افراد پر کوئی شور نہیں کرتا۔ خود جماعت اسلامی بھی اپنے “دشمنوں” میں تعصب رکھتی ہے، اسے وہی قتل “مرغوب” ہیں جس کا الزام وہ “ایم کیو ایم” پر لگا سکے۔ باقی ہلاکتیں دوسروں سے بھی ہوئیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے کبھی شاذونادر ہی ان پر بات کی ہو۔ یا بالکل چپ سادھ لی۔ ایسا ہی آج کے دن جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ذوالفقار بھٹو ان سے سخت نالاں رہتے تھے اور مبینہ طور پر انھوں نے ہی انھٰں راستے سے ہٹوایا اور اس کے لیے گورنر مصطفیٰ کھر کی “خدمات” لیں، لیکن جماعت اسلامی کیوں اس قتل ناحق پر اسی طرح واویلا نہیں کرتی جس طرح مبینہ طور پر “ایم کیو ایم” کے کھاتے میں آنے والے یا ڈالے جانے والے قتلوں پر کرتی ہے، خود کراچی میں بھی دیکھا گیا ہے کہ دیگر تنظیموں سے مارے جانے والے کارکنان پر اتنا جوش نہیں اٹھتا جتنا ایم کیو ایم کے خلاف والوں پر ہے۔ شاید اس کی وجہ جماعت اسلامی کے غیر مقامی عناصر بھی ہوں۔
خیر آج ہم صرف آپ کو ڈاکٹر نذیر احمد کی یاد دلاناچاہتے ہیں، جنھیں ان کے مطب کے اندر نامعلوم قاتلوں نے شہید کردیا۔ وہ 12 فروری 1922ء کو مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے اور پھر 1945ء میں لاہور میں جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے۔ 1970ء کے عام اانتخابات میں وہ ڈیرہ غازی خان سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
ڈاکٹر نذیر احمد مختلف ادوار میں مقامی و ضلعی امیر رہنے کے علاوہ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ اور مجلس عاملہ کے بھی رکن رہے اور ایک موقع پر صوبہ پنجاب کے نائب امیر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ نذیر احمد شاعری سے بھی شوق رکھتے تھے اور ان کے خطوط کا مجموعہ “لب زندان” کے عنوان سے شایع بھی ہوا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *