Categories
Exclusive Karachi MQM انکشاف ایم کیو ایم جماعت اسلامی سیاست قومی تاریخ قومی سیاست کراچی مہاجرقوم

بشریٰ زیدی نے اپنی موت کی پیش گوئی کردی تھی؟ حادثے میں زخمی ہونے والی بہن سیما روشنی ڈالتی ہیں

سمے وار (مانیٹرنگ ڈیسک)
بشریٰ زیدی کی بہن سیما زیدی کہتی ہیں کہ بشریٰ زیدی نے رات کو کہا کہ میں کل کالج نہیں جائوں گی، کچھ مہمان آئے بہت ہنسی مذاق کیا اور رات کو وصیت نامہ بھی لکھا بیگ میں کھلے پیسے اسے دے دینا اور کتابیں اسے دے دینا، گھر کے نیچے شادی تھی وہاں جا رہی تھیں تو امی نے ڈانٹا تو بشریٰ نے کہا آپ فکر نہ کیجیے آپ کی بیٹی ٹاپ کرے گی، اخباری نمائندے گھر آئیں گے اور بڑی بڑی تصویریں چھپیں گی۔
اب صبح الٹا نجمہ کہنے لگی کہ میں نہیں جائوں گی اور بشریٰ نے کہا مجھے جانا ہے۔ بشریٰ ہاتھوں کی پلی ہوئی اور بہت ہنس مکھ بچی تھی، پریپ ون میں داخلہ کرانے گئے تو انھوں نے ٹو کلاس میں لیا کہ ذہین بچی ہے۔ اے ون گریڈ میں میٹرک کیا، سرسید میں گئے ہوئے تو دو مہینے بھی نہیں ہوئے تھے۔ شاعری کا بہت شوق تھا، سب سے پہلے نظم مجھ پر ہی لکھی میری منگنی پر۔ حکومت نے پچاس ہزار روپے کی امداد کی تھی۔
نجمہ زیدی
چار نمبر بس میں بیٹھے، بائیس رجب کو کونڈے تھے، میں بہت تھکی ہوئی تھی، اس روز اس نے ضد کی نہیں یہ ٹکیاں وغیرہ لے کر جانی ہیں۔ چار نمبر کی بس سے اتر کر سڑک پار کر رہے تھے ویمن کالج کے سامنے سے۔ اتنے میں ایک منی بس پیچھے سے آئی اور سب سے آگے وہ تھی سر کے بل گری، میں بچانے کے لیے آگے بڑھی، بس مجھے کچلتی ہوئی آگے بڑھی، سر کے بل گری تھی دماغ پر چوٹ آئی تھی۔ میری ریڑھ کی ہڈی ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں اور جگر بھی متاثر ہوا تھا، میری صورت حال نازک تھی۔ جب نعمت اللہ ایڈووکیٹ ہوتے تھے، انھوں نے بہت ساتھ دیا۔ دو سال داخل رہی، میرا ۤپریشن چلتے رہے، ڈاکٹر کہتے تھے کہ ان کے ہاں بچے نہیں ہوں گے، ماں کہتی تھیں کہ ایک تو کو تو نے لے لیا ہے کہ جب پتا چلتا کہ چل نہیں سکتی، بیٹھ نہیں سکتی کھا نہیں سکتی، ایسی زندگی سے تو اسے بھی اٹھا لے ۔۔ پھوپھا جو سسر تھے، منگنی ہوئی ہوئی تھی، انھوں نے کہا کہ اگر بٹھا کر کھلانا پڑا تو میں کروں گا۔ یہ ہوتا تھا کہ سب آتے ہیں بشریٰ نہیں آتی، پھر ایک دن ضد کرکے پوچھا تو پھر کسی طرح سے مجھے یہ بتایا گیا۔ ہم تب سے اب تک حیدری میں رہتے ہیں۔
لاہور میں ماموں نے بشریٰ کا رشتہ مانگا تھا، لیکن والدہ نے نہں کیا تھا، بعد میں کہتی تھیں کہ کاش کردیتی تو کیا پتا بشریٰ بچ جاتی۔
اسی اپریل کی یکم کو میرے پھوپھی زاد اور منگیتر راجا کو کال کر کے یہی واقعہ بتایا کیوں کہ وہ رشتہ ہونے کے بعد ہمارے گھر آتے جاتے نہیں تھے، کہا کہ راجا بھائی ہم سڑک پار کر رہے تھے ہمیں بس نے ٹکر مار دی ہے اورہم عباسی شہید اسپتال میں ہیں، اس سانحے کا بالکل من وعن یہی واقعہ بتایا تھا۔
واجد رضا بتاتے ہیں کہ اس بس کے ڈرائیور کے حوالے سے مختلف خبریں آئیں، اس ڈرائیور نے کبھی بشریٰ کے والد سے ملاقات نہیں کی، البتہ انھوں نے کہا تھا کہ میں بدلا نہیں لینا چاہتا، معاف کرتا ہوں۔ کیوں کہ اس وقت شہر میں مہاجر پٹھان فسادات پھیل گئے تھے۔ ڈرائیور نے یہ بس مالک کے گھر کے باہر لاکر کھڑی کردی، ساڑھے گیارہ بجے کے قریب وہ بس لے کر نکلا اور اسی راستے پر پہنا تو اس جگہ پہنچ کر اس کی بس کو روک کر آگ لگا دی گئی اور اسے ماردیا گیا۔ واحد کفیل تھا، ایک بیٹا اور بیٹی تھی، بڑی متاثر ہے۔ بیٹا اور داماد فوت ہوچکا ہے، ان کے بچے کسم پرسی میں ہیں اور وہ سامنے آنا نہیں چاہتے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *