تحریر: احمر سعید
جامعہ کراچی میں “سندھی شاگرد ست” کی جانب سے سندھی ثقافت کے بڑھتے ہوئے پرچار اور اس میں شعبہ سندھی کے اساتذہ کی پشت پناہی صورت حال بگاڑ رہی ہے۔ گذشتہ چند برسوں سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو باقاعدہ جامعہ کراچی کے اندر سندھی قوم پرستی کو ہوا دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر سندھی قوم پرست تنظیم اور اسلامی جمعیت طلبہ کے درمیان تصام ہوا۔ ماضی میں بھی 14 اگست کے قریب ایسی کشیدگی پیدا ہوچکی ہے۔
حکام اس معاملے سے آنکھیں موندے ہوئے ہیں اور جامعہ کراچی کی ایک دیوار پر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے اشعار پر سیاہی پھیرنے پر مختلف آرا سامنے آرہی ہیں۔ اس کا الزام جمعیت پر عائد کیا جا رہا ہے، لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ جامعہ کراچی میں آخر یہ کون سی نئی بات پیدا کی جا رہی ہے اور پھر کراچی کو سندھ کہہ کر اس پر حق جتایا جا رہا ہے۔ آپ بتائیے کہ کسی کے گڑھ میں اور کسی اور ثقافت کے بیچ میں آپ اپنی ثقافت کا پرچار کریں گے تو نتیجہ امن کی صورت میں نکلے گا؟
عجیب بات یہ ہے کہ نورالہدی شاہ جیسی متعصب لکھاری بھی اسے شاہ لطیف اور سندھی کی ہتک قرار دینے پر تلی ہوئی ہیں، کیوں کہ ان کے ہاں کراچی اور کراچی والوں کی کبھی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے۔ سب امن ومحبت سے رہیں اور ایک دوسرے کا احترام کریں اور تسلیم کریں کراچی اور حیدرآباد میں مہاجروں کا حق ہے، اسے تسلیم کیا جائے، جامعہ کراچی میں گھس کر اگر سندھی ثقافت کا پرچار ہوگا تو پھر مسائل پیدا ہوں گے۔ ایسا ہوتا ہے کہ جب آپ کسی قوم کو دیوار سے لگاتے ہیں اور جبراً اس پر اپنی ثقافت اور زبان مسلط کرتے ہیں تو پھر نفرتیں ہی پھیلتی ہیں۔
کاش کوئی اہل دل اتنی سی بات ان ڈراما نگار صاحبہ کو سمجھا سکے کہ کراچی ویسیے ہی کڑھ رہا ہے، لاوا پک رہا ہے، کیوں اشتعال انگیزی کی تیلی دکھانے کی طرف داری کر رہی ہیں، کیوں انتہا پسند سندھی قوم پرست سے اٹھ کر کبھی مہاجر قوم کے حق کو تسلیم کرنے کی بات نہیں کرتیں۔
نور الہدیٰ شاہ تو نور الہدیٰ شاہ، ہمارے اساتذہ اور اہل فکر ونظر کہاں ہیں؟
کراچی اور کراچی والے اب کسی نفرت انگیزی کے متحمل نہیں ہوسکتے! خدارا جیو اور جینے دو کی پالیسی پر چلیے۔ آپ اپنے گھر خوش اور ہمیں اپنے گھر خوش رہنے دیجیے!
Categories