سمے وار (مانیٹرنگ ڈیسک)
پاکستان کے مایہ ناز فاسٹ بالر عاقب جاوید میچ فکسنگ کے حوالے سے اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ جسٹس قیوم کی سربراہی میں تفتیش کے دوران ساتھی کرکٹر رمیز راجا نے وہاں سے آتے ہوئے کہا عاقب، دیکھو میرے چہرے پر پھٹکار تو نہیں آگئی، تب مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا، لیکن جب ان کے بعد میں جسٹس قیوم کے پاس گیا تو انھوں نے قرآن پر حلف لیا کہ سچ بولیں گے، تب یہ بات سمجھ میں ۤآگئی کہ رمیز راجا نے ایسے کیوں کہا تھا۔
قرآن پر حلف لینے کے بعد پھر جب میں ںے گفتگو شروع کی تو جسٹس قیوم نے مجھے روکا اور کہا کہ عاقب جاوید کا بیان بند کمرے میں ہوگا، پھر میں نے بند کمرے میں بیان دیا، جب یہ باتیں باہر ٹیم کو پتا چلیں تو یہ سب میرے خلاف ہوگئے۔
اس کے بعد تین چار سال بہت مشکل سے ہی ٹیم کا حصہ رہ سکا، اکثر یہی ہوتا تھا کہ جب وسیم اکرم کپتان ہوں گے یا ٹیم میں ہوں گے میں ٹیم میں نہیں ہوں گا۔
1998 میں جب ٹیم کا حصہ تھا تو کہا گیا کہ ٹیم کی میٹنگ ہے ۤآپ اپنے کمرے میں جائیں، میں نے کہا ٹھیک ہے اور اپنے کمرے میں آگیا، لیکن بہت دیر ہوگئی جب ساتھی کھلاڑی نہیں ہوئے تو میں سوچتا رہا کہ ایسا کیا ہو رہا ہے کہ جو انھوں نے مجھے بھیج دیا۔ پتا چلا کہ اس وقت میٹنگ میں یہ طے ہوا کہ عاقب جاوید نے پتا نہیں وہاں ہمارے خلاف جا کر کیا باتیں بتائی ہیں، اس لیے جو بھی ٹیم میں ہے وہ اس سے کوئی بات نہیں کرے گا۔ اور اگر کوئی کرے گا تو وہ بھی اس کا ساتھی تصور ہوگا۔
کچھ عرصے قبل دیے گئے ایک اپنے اس انٹرویو میں عاقب جاوید کہتے ہیں کہ یہی وہ لمحہ تھا کہ جب میں نے طے کیا کہ اس طرح تو میں ساتھ نہیں چل سکتا، اس لیے پھر کرکٹ ہی چھوڑ دی۔
عاقب جاوید کا کہنا تھا کہ جو بھی سٹے بازی کے خلاف بولے گا اس کا کیرئیر ختم ہوگا، اسی وجہ سے اس کے خلاف ایک حد تک ہی جا سکتے ہیں، نتیجے میں پھر کیرئیر ختم ہوجاتا ہے۔
میچ فکسنگ مافیا اتنا طاقت ور ہے کہ کھلاڑی ایک بار مرضی سے اس کا حصہ بنتے ہیں،لیکن پھر اس کے بعد نہیں نکل سکتے
مجھے بعد میں بھی کنارے پر رکھا گیا، اس لیے کرکٹ کے بعد اس سے بھی پیچھے ہوگیا۔
عاقب کا کہنا تھا کہ میچ فکسنگ یا اسپاٹ فکسنگ کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ سخت کارروائی ہو اور سزائیں دی جائیں، جسٹس قیوم نے سزائیں دیتے ہوئے یہی کہا تھا کہ یہ کھلاڑی ہمارا سرمایہ ہیں، اگر سخت سزائیں دیں تو ان کا کیرئر ہی ختم ہوجائے گا۔ میچ فکسنگ کے لیے ضروری ہے کہ پانچ چھے کھلاڑی ساتھ ملے ہوئے ہوں، اس کے بغیر مقصد حاصل نہیں ہوتا، اور یہ ہوتا تھا کہ پانچ چھے کھلاڑی ان کے ساتھ ہوتے تھے۔
Categories