سمے وار (خصوصی تجزیہ) سیاسی جوڑ توڑ کے منچ پر نت نئے مہرے اور چالیں سامنے آرہی ہیں، ایم کیو ایم (بہادر آباد) گروپ کی باضابطہ طور پر حکومت سے علاحدگی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ عمران خان اب وزیراعظم نہیں رہیں گے۔ اور یہ وہ نکتہ ہے جو امکانی طور پر انھیں اگلے عام انتخابات میں ایک نئی زندگی دے سکتا ہے اور وہ دوبارہ حکومت میں آسکتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے عمل کا نقصان کس کو ہوگا؟
سوچیے، عمران خان نے زیادہ تر کس کے ووٹ بینک پر چوٹ لگائی تھی؟ یقیناً زیادہ تر نواز لیگ اور نواز شریف کے ووٹروں نے عمران خان کو منتخب کیا۔ اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس عمل میں حزب اختلاف میں54 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر کی جماعت ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری سب سے زیادہ متحرک ہیں اور وہ موجودہ اسمبلی کی ڈیڑھ سال والی وزارت عظمیٰ 82نشستوں والی نواز لیگ کے حوالے کر کے اگلے انتخابات میں ان کے رہے سہے راستے کو بھی بند کر رہے ہیں!
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف تو پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پھر دوبارہ ووٹ حاصل کر لے گی، لیکن سندھ میں ذوالفقار مرزا اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا وغیرہ کی شمولیت کے باوجود اس کی مضبوطی کا فی الحال کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا، اس طرح پیپلز پارٹی کو اگلی بار دوبارہ سندھ میں چھوڑی ہوئی حکومت مسلسل چوتھی بار واپس مل جائے گی، یعنی آپ دیکھیے کہ 2018ءمیں شہباز شریف میٹرو ٹرین، اورنج ٹرین اور دیگر بڑے منصوبے بنانے کے باوجود پنجاب گنوا دیتے ہیں، جب کہ پیپلز پارٹی 2008ءسے 2018ءتک کی بدترین کارکردگی کے باوجود دوبارہ سرخرو ہو جاتی ہے۔
تو کیا ہمیں یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی جگہ لینے والی کوئی سیاسی قوت مستحکم نہیں ہوسکی ہے۔ اس لیے 2023ءکے عام انتخابات میں ’ بادشاہ گر‘ آصف علی زرداری موجودہ کردار ادا کرتے ہوئے دراصل مسلم لیگ (ن) کا پتا صاف اور عمران خان کی گھٹتی ہوئی مقبولیت کو نئی زندگی دینے کا باعث بن رہے ہیں، جب کہ انھیں سیاسی طور پر کوئی گھاٹا نہیں ہو رہا۔
Categories