Categories
اچھی اردو اردوادب تہذیب وثقافت رضوان طاہر مبین

ڈاکٹر یونس حسنی: ”اپنے علمی خانوادے کے نظریاتی امین“

تحریر: رضوان طاہر مبین

(کالموں کے تازہ مجموعے کے لیے لکھا گیا مضمون)
گذشتہ دنوں اپنی ’پی ایچ ڈی‘ کی تحقیق کے دوران یہ اَمر بار بار ہمارے سامنے آتا رہا کہ اخباری ’کالم‘ کو چاہے ہم اخبار کی ’ایک یوم کی زندگی‘ سے نکال کر تادیر تازہ رہنے والی تحریر کیوں نہ سمجھیں، لیکن ہے بہرحال وہ ایک ’اخبار کا کالم‘ ہی! اس لیے اس کے بہت سے مندرجات اُسی زمانے کی صورت حال کے مطابق مختلف یا کچھ دیگر معنی بھی دے سکتے ہیں، اور دیتے بھی ہیں اگر کبھی پرانے ’کالم‘ پڑھیے، تو بعضے وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیں ’کالم‘ کا پس منظر یا اشاروں کنایوں میں تذکرہ کی گئی کسی بات کا ’اصل‘ معلوم نہیں ہوتا، تو وہ ’کالم‘ اس صحت کے ساتھ اِبلاغ نہیں کر پاتا کہ جیسا اپنی اشاعت کے وقت کر سکتا ہوگا۔ کبھی تو ’کالم‘ میں مذکور ایسی ’ناقابل فہم‘ چیزوں سے الجھن بھی محسوس ہوتی ہے کہ یہاں اس بات یا اس تشبیہ کا موقعِ محل دراصل تھا کیا؟ اس لیے بعد میں یا کسی ’مجموعے‘ میں ’کالم‘ پڑھنے والے قاری کو کئی بار کنایتاً کہی گئی بات یا بین السطور کسی پیغام کو سمجھنے میں کافی دشواری کا سامنا رہتا ہے۔
ڈاکٹر یونس حسنی نے بھی اگرچہ اپنے اخباری کالموں میں حالات حاضرہ ہی کو موضوع بنایا ہے، لیکن موضوعات پر ان کے سیدھے سادے استدلال سے مفہوم اب بھی واضح اور اپنی تاریخی اہمیت کے ساتھ ایک تازگی لیے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔ البتہ بدلتے ہوئے حالات میں معمول کی کچھ چیزیں آج کے قاری کے لیے دل چسپ ’انکشاف‘ بن جاتی ہیں۔ جیسے 18، 19سال پہلے شایع ہونے والے ایک کالم بہ عنوان ”لو وہ آگئے“ میں جب وہ مہنگے ہونے والے آٹے کی قیمت 13 روپے فی کلو بتاتے ہیں، تو ہمیں فوراً یاد آتا ہے کہ آج تو ایک تندوری روٹی کی قیمت بھی اِس ایک کلو آٹے کی قیمت سے دو روپے زیادہ ہو چکی ہے!
ڈاکٹر یونس حسنی عام حالات و واقعات اور ایسی خبروں کو اپنے ’کالم‘ کا عنوان بناتے ہیں، جس کے ذریعے وہ قارئین کی کچھ تربیت یا راہ نمائی کر سکیں، اب چوں کہ وہ علما کے قبیل سے ہیں، اس لیے باقاعدہ عالمِ دین نہ ہونے کے باوجود وہ کافی حد تک اپنے خانوادے کے اس علمی و دینی ’ورثے‘ کے امین دکھائی دیتے ہیں۔ وہ دین اسلام کو ایک مکمل ضابطہ¿ حیات ماننے کے داعی ہیں، اس لیے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر اسلام اور مسلمانوں سے جڑا ہوا کوئی بھی واقعہ ان کی توجہ حاصل کر لیتا ہے اور وہ اپنے کالم میں اس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے چھوٹے بڑے معاشرتی مسائل جیسے اخلاق وکردار، تعلیم، پانی، بجلی، ٹریفک، گرانی اور ملاوٹ وغیرہ بھی گاہے گاہے ان کے کالموں کا عنوان بنتے رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ وہ اخبار میں شایع ہونے والے ایک ’مراسلے‘ پر بھی اپنا ’کالم‘ استوار فرماتے ہیں۔ اسلام کے ساتھ وہ اردو اور پاکستان کو بھی اپنے کالموں میں خصوصی طور پر موضوع بناتے ہیں، بالخصوص پاکستان کا وجود اور اس کی مذہبی بنیاد اُن کے نزدیک بہت اہمیت رکھتی ہے۔
اِن کے کالموں میں سنجیدگی کے باوجود بہت سی جگہ دبا دبا سا طنز اور ضروری نصیحت بھی پائی جاتی ہے۔ ایک کالم ”کل آنا“ کے مطابق انھیں ایک صاحب اپنے دفتری اوقات میں یہ بتا رہے تھے کہ وہ ہر رمضان آٹھ مرتبہ کلامِ پاک کی تکمیل کرتے ہیں، اس برس کچھ غفلت ہوگئی، اس لیے جب بھی وقت ملتا ہے، وہ تلاوت کر لیتے ہیں، جس پر انھوں نے برجستہ فرمایا کہ یہ قرآن پاک ہے، کوئی کرکٹ کا میچ تو ہے نہیں کہ آپ ریکارڈ پورا کرنے کے چکر میں پڑیں! وہ بھی دفتری مصروفیات کی قیمت پر! یہاں کرکٹ میچ کا لطیف سا طنز پڑھنے والے کو یکایک گدگدا دیتا ہے اور ان کی بات بھی قاری تک پہنچ جاتی ہے۔
وہ کبھی اپنے ’کالم‘ میں کسی تقریب کا احوال ضرور لکھتے ہیں، لیکن ان کے کالم میں آپ کو کسی ’منچ‘ پر پڑھے گئے مضمون شایع کرنے کا چلن دکھائی نہیں دے گا، جو کہ اِن کے معاصرین کے ہاں ایک خاصا عام رویہ ہے، حالاں کہ ڈاکٹر یونس حسنی تو اردو لسانیات، تحقیق اور تنقید کے ان معدودے چند اساتذہ میں شمار کیے جاتے ہیں، جو اب نایاب ہو چلے ہیں، لیکن انھوں نے اپنے کالموں کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے ہمیشہ ہلکے پھلکے اور آسان موضوعات میں ’آباد‘ کیا ہے۔ البتہ صحافتی یا اخباری اردو کی ’سہل پسندی‘ کے درمیان ان کے کالموں میں کبھی کبھی نانِ جویں، اِمساک باراں، پرداخت اور ’بسر وچشم‘ وغیرہ جیسی گہرے اِبلاغ کرنے والی تراکیب اور الفاظ بھی دکھائی دے جاتے ہیں۔
اپنے ایک کالم میں ڈاکٹر یونس حسنی اشتہارات میں مولوی صاحب کی جانب سے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے کے مشورے پر قارئین کی توجہ دلاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جیسے فتوے دینا مولوی صاحب کا کام ہے، بالکل ایسے ہی ٹیکے لگوانے کا بتانا ایک ڈاکٹر کا کام ہے۔ اس کے بعد وہ مثالوں کے ساتھ بات سمجھاتے ہیں کہ ’کسی اچھے صابن اور شیمپو کی تشہیر کے لیے اداکارائیں سامنے آتی ہیں، تو وہاں یہ منطق سمجھ میں آتی ہے کہ چلیے ان کی اچھی جلد اور صحت مند بال کا راز یہی مصنوعہ ہوگی، لیکن اگر وہی اداکارہ آکر شیونگ کریم وغیرہ کا بتائیں، تو اس کی کوئی منطق نہیں بنتی۔‘
اردو ’کالم نگاری‘ میں اپنی ذات کا اظہار معیوب نہیں سمجھا جاتا، بلکہ بعضے تو اِسے ’کالم‘ کی خوبی اور کالم کو مضمون سے ممتاز کرنے والا ایک محاسن بتاتے ہیں کہ قاری اپنی رائے بنانے کے لیے اسی طرح ہی ’کالم نگار‘ کی پیروی اور اطاعت کا خواہاں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر یونس حسنی کے ہاں اپنی ذاتی زندگی کے اظہار کا چلن بس اس قدر ہے کہ جہاں کسی مفاد عامّہ کے مسئلے یا اخلاقی پہلو سے روشناس کرانا مقصود ہو۔ البتہ ایک کالم ”برکتوں کا کاروبار“ میں وہ اپنے گھریلو زندگی کے حوالے سے لطیف تذکرہ فرماتے ہیں، اگرچہ اس کا موضوع بھی حسب روایت ایک عوامی مسئلہ (تاجروں کی منافع خوری) ہی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ انھوں نے تاجروں کو ہمیشہ مندی کے ہاتھوں روتا ہوا ہی پایا ہے، کبھی کسی تاجر کو اپنے کاروبار میں تیزی کا اعتراف کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ایسے ہی ایک ’کالم‘ میں اپنی جنم بھومی ریاست ’ٹونک‘ میں نمازِ استسقا کی معجزانہ قبولیت کا واقعہ بیان کرتے ہیں، جو واقعی ایک خاصے کی چیز ہے، اسے پڑھ کر بطور قاری ہمارا جی چاہتا ہے کہ کیا ہی اچھا ہو کہ کبھی کبھی وہ اپنی قبل از ہجرت کی یادداشتوں سے بھی ’دفتر کھلا‘ کو سجا لیا کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *