Categories
انکشاف ذرایع اِبلاغ رضوان طاہر مبین سمے وار- راہ نمائی

اردو اخبارات کے  چند مشہور کالم نگار

اردو اخبارات کے  چند مشہور کالم نگار
تحریر: رضوان طاہر مبین
۔۔۔۔۔۔

جاوید چوہدری

مستقل عنوان : زیروپوائنٹ

اخبار: روزنامہ ایکسپریس

ریکارڈ ساز کالم نگار ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مہنگے اور مقبول ترین کالم نگاروں میں سے ایک رہے ہیں۔ انھوں نے کالم کو کہانی کی طرز پر لکھنے کا آغاز کیا ، اس حساب سے انھیں رجحان ساز (ٹرینڈ سیٹر) کہا جاسکتا ہے، ان کے کالموں کے ابتدائی مجموعے ’زیروپوائنٹ‘ اور ’زیروپوائنٹ‘ کئی برسوں سے مستقل شایع ہو رہی ہے اور بلا مبالغہ لاکھوں کی تعداد میں چھپ چکی ہے۔ انھوں نے کالم لکھنے کے لیے باقاعدہ ایک ٹیم رکھی ہوئی ہے، جو انھیں اعدادوشمار جمع کرکے دیتی ہے، جسے وہ کالم میں استعمال کرتے ہیں۔ ان پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ اعدادوشمار بعض اوقات نہایت غلط ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں بحریہ ٹاﺅن کے ملک ریاض کا بار بار تذکرہ کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس طرح وہ مختلف شخصیات کے بار بار تذکرے کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے سیاحتی دوروں کے لیے باقاعدہ اپنے کالموں کو استعمال کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ن) میں شہباز شریف کے لیے وہ اکثر کالم لکھتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کس وقت کس کے حق میں کالم لکھ جائیں گے، کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ وہ خود کو متوازن دکھانے کے لیے ایک دو کالم دوسری طرف کے بھی لکھ دیتے ہیں، لیکن اکثر طرف داری دوسری طرف کی ہی رہتی ہے۔ اس کے باوجود وہ اردو کے بڑے کالم نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ 2006ءسے ایکسپریس میں کالم لکھ رہے ہیں۔ ہفتے میں تین چار کالم لکھتے ہیں۔ اس سے قبل ’جنگ‘ میں لکھتے ہوئے ہی وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکے تھے۔ 2007 ءسے وہ ایکسپریس نیوز پر ’کل تک‘ کے نام سے ایک پروگرام بھی کرتے ہیں۔

زاہدہ حنا

مستقل عنوان : نرم گرم

اخبار: روزنامہ ایکسپریس

افسانہ نگار اور ادیبہ ہیں۔ یہ بھی 2007ءسے پہلے جنگ میں لکھتی تھیں، اب ایکسپریس میں ہفتے میں دو دن بدھ اور اتوار کو کالم لکھتی ہیں۔ نظریاتی طور پر لبرل اور روشن خیال کہی جاتی ہیں۔ ادب، انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور اقلیتوں وغیرہ کے مسائل پر لکھتی ہیں۔ ان کی سب سے نمایاں خصوصیت مسلم لیگ (ن) کا طرف دار ہونا ہے۔ وہ اس حمایت کو جمہوریت کی حمایت قرار دیتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ پرویز مشرف دور میں بھی مستقل طور پر نواز شریف کی حمایت میں لکھتی رہی ہیں۔ اس اعتبار سے وہ بہتر ہیں کہ وہ حکومت بدلنے سے اپنی وفادار نہیں بدلتیں، بلکہ جسے وہ درست سمجھتی ہیں اسی پر قائم رہتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پیپلزپارٹی کی مخالفت کرتی ہیں۔ ذوالفقار بھٹو سے لے کر بے نظیر تک کی براہ راست حمایت میں لکھتی رہی ہیں، تاہم تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف رہتی ہیں۔

حامد میر

مستقل عنوان: قلم کمان

اخبار: روزنامہ جنگ

حامد میر کا شمار بلاشبہ پاکستان کے چند بڑے صحافیوں میں ہوتا ہے۔ وہ جیو پر ’کیپٹل ٹاک‘ کے نام سے مقبول پروگرام بھی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کالم بھی لکھتے ہیں۔ ان کے کالموں میں خبروں سے متعلق معلومات ملتی ہیں۔ ماضی میں وہ کبھی نوازشریف کی حمایت اور کبھی مخالفت میں لکھتے رہے ہیں۔ مختلف ممالک میں رپورٹنگ کے لےے جاتے رہے ہیں۔ اسامہ بن لادن کے انٹرویو سے انھیں بہت شہرت ملی، وہ مشہور صحافی وارث میر کے بیٹے ہیں، جو جنرل ضیا الحق کے دور میں ان کے سخت ناقد رہے۔ حامد میر خود کو صحافتی آزادی اور جمہوریت کا نام لیوا قرار دیتے ہیں اوراسی حوالے سے اکثر لکھتے رہتے ہیں۔ چند برس قبل ان پر کراچی میں ایک قاتلانہ حملہ بھی ہوا، جس کا الزام ان کے بھائی نے آئی ایس آئی پر عائد کیا اور پھر اس الزام کے بعد جنگ اور جیو کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

حسن نثار

مستقل عنوان : چوراہا

اخبار: جنگ

حسن نثار درمیان میں ایکسپریس اور دنیا اخبار سے بھی وابستہ رہے۔ ان کا کالم جنگ میں صفحہ نمبر دو پر شایع ہوتا ہے۔ 2006ءمیں وہ ایکسپریس آئے تھے، جہاں پہلی بار ان کا کالم ’ادارتی صفحے‘ کے بہ جائے صفحہ نمبر دو پر شایع ہونا شروع ہوا تھا، جس کے بعد وہ ایک سال بعد جنگ گئے تو ادارتی صفحے کے بہ جائے صفحہ نمبر دو پر شایع ہونے لگے ان کے کالم بے باک اور سخت ہوتے ہیں۔ ان کے الفاظ سخت کڑوے اور جملے بہت کاٹ دار ہوتے ہیں۔ ماضی میں وہ عمران خان کے بڑے زبردست حامی رہے، تاہم پھران کے خیالات میں تبدلی رونما ہوئی ، وہ اپنے کالموں میں ملک کے مسائل اور یہاں کے نظام پر گرجتے برستے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ جیو پر ایک پروگرام میرے مطابق بھی کرتے ہیں۔

ہارون الرشید

مستقل عنوان: ناتمام

اخبار: روزنامہ 92

تاریخ کے حوالے اور مثالوں سے آراستہ کالم لکھتے ہیں۔ زبان بھی بہت علمی ہوتی ہے، اسلامی ذہن کے حامل ہیں، بہت طویل عرصے تک عمران خان کی حمایت میں لکھتے رہے، کہا جاتا ہے کہ عمران خان کے لیے ’میرے کپتان‘ کا خطاب انھی کے کالموں سے ملا۔ تاہم پھر حکومت بننے کے بعد وہ عمران خان پر تنقید بھی کرنے لگے، کالموں میں جرنیلوں اور فوج سے اپنے تعلقات کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ ماضی میں جنگ، ایکسپریس اور دنیا میں بھی لکھتے رہے ہیں۔ اب 92 میں لکھ رہے ہیں۔ اپنی طرز کے منفرد کالم نگار ہیں۔ آپ ان سے اختلاف کرسکتے ہیں، لیکن شاید جتنا معلوماتی اور علمی کالم یہ لکھتے ہیں، ایسا اور کوئی لکھ رہا ہو۔

اوریا مقبول جان

مستقل عنوان: حرف راز

اخبار: روزنامہ 92

سوشل میڈیا کے عروج کے بعد جب نظریاتی طور پر لبرل اور اسلام پسند یا سیکولر اور مذہبی کی بحث چھڑی اور یا مقبول جان ہمشہ مذہب اور اسلامی سوچ کے عَلم بردار بن کر سامنے رہے۔ وہ بہت کھلے انداز میں مذہبی نظریات کا پرچار کرتے ہیں اور براہ راست لبرل اور سیکولر حلقوں کے خلاف صف آرا رہتے ہیں۔ ان کے کالموں کے موضوعات بھی اکثر یہی ہوتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حمایت کرتے رہے اور مذہب کے حوالے سے کالموں میں ایسے تذکرے بھی کرتے رہتے ہیں جس میں عذاب کا ذکر ہوتا ہے کہ فلاں بزرگ یا برگزیدہ بندے نے انھیں بتایا ہے یا اسے خواب آیا ہے کہ قوم توبہ کرلے وغیرہ۔ ماضی میں جسٹس افتخار چوہدری کی حمایت میں جہاں لبرل زاہدہ حنا اور دیگر لکھ رہے تھے وہاں ہارون رشید کے ساتھ اوریا مقبول جان بھی لکھ رہے تھے اور ان کا استدلال تھا کہ افتخار چوہدری کی بحالی سے زمین پر انصاف کا بول بالا ہوگا جس سے اللہ کا عذاب ٹل جائے گا۔ اوریا مقبول جان ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں، وہ اپنی نوکری کے ساتھ بھی کالم لکھتے رہے، ان پر تنقید ہوتی ہے کہ وہ سسٹم پر تنقید کرتے ہیں اور خود اس سسٹم کا حصہ بنے رہے۔

عطا الحق قاسمی

مستقل عنوان: روزنِ دیوار سے

اخبار : جنگ

اس وقت شاید قاسمی صاحب سے پرانا کوئی کالم نگار اس دنیا میں موجود نہیں رہا۔ وہ نظریاتی طور پر دائیں بازو کے سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم اپنے کالموں کے بل پر بیرون ملک پاکستان کے سفیر بھی رہے، آج بھی نواز شریف کے واضح حامی تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کے بیٹے یاسر پیرزادہ بھی جنگ میں کالم لکھتے ہیں اور نظریات کے اعتبار سے اپنے والد سے بہت زیادہ لبرل ہیں۔ عطا الحق قاسمی کے کالموں کی ایک خصوصیت ان کا طنزومزاح پر مبنی ہونا ہے، وہ اس قبیل کے بھی شاید اکیلے کالم نگار بچے ہیں جو اپنے کالموں میں طنزومزاح لکھ لیتے ہیں، ورنہ اب سبھی کالم نگار سنجیدہ کالم لکھ رہے ہیں۔

اردو کے دیگر اہم کالم نگاروں میں مندرجہ ذیل بھی شامل ہیں۔

وسعت اللہ خان (ایکسپریس)

بی بی سی سے وابستہ رہے، ان کے کالم متاثر کن اور معلومات لیے ہوئے ہوتے ہیں۔

رﺅف کلاسرہ (دنیا)

بہت سینئر رپورٹر ہیں اور ان کے کالموں میں بھی نئی معلومات ملتی ہیں۔

نصرت جاوید (نوائے وقت)

سینئر صحافی ہیں اور اس اعتبار سے ان کے کالموں میں حالات حاضرہ کے مختلف رخ پڑھنے کو ملتے ہیں۔

عامر لیاقت حسین (ایکسپریس)

جنگ کے بعد کئی بار ایکسپریس میں کالم لکھے، ایک بار پھر کچھ عرصے سے ایکسپریس میں لکھ رہے ہیں۔ متنازع کالموں سے قطعہ نظر اردو زبان پر انھیں خوب عبور ہے۔ وہ جب کسی پر قافیے سے قافیے ملانے پر آئیں تو اکثر حد سے بھی آگے گزر جاتے ہیں۔ جو کہ ظاہر ہے درست بات نہیں ہے۔ پہلے ایم کیو ایم میں رہے، وہاں سے تحریک انصاف کے خلاف کئی سخت کالم لکھے اور اب تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ہیں اور ایم کیو ایم کے خلاف بھی کالم لکھ دیتے ہیں۔حال ہی میں ایسا ایک کالم کافی زیر بحث رہا۔

سہیل وڑائچ (جنگ)

’ایک دن جیو کے ساتھ‘ کے عنوان سے منفرد طرز کے انٹرویو سے شہرت رکھتے ہیں، اس سے قبل اخبارات کے لیے بھی انٹرویو کرتے رہے ہیں۔ بڑے صحافیوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے کالم بھی اہم ہوتے ہیں۔

رضا علی عابدی (جنگ)

بی بی سی کے سینئر صحافی ہیں۔ ان کا طرز تحریر سب سے جداگانہ اور زبان کا خوب لطف دیتا ہے۔ شائستہ اور نرم لفظوں سے آراستہ ان کے کالم ان کی آواز کی طرح نرم وگداز محسوس ہوتے ہیں۔ ان کے کالموں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

امر جلیل (جنگ)

سندھی کے پرانے ادیب ہیں، کچھ برسوں سے جنگ میں کالم لکھنے لگے ہیں۔ ان کے کالموں میں بھی گزرے وقت کی بازگشت سنائی دیتی ہے، بالخصوص پرانے کراچی پر اکثر لکھتے رہتے ہیں۔

وجاہت مسعود (جنگ)

صف اول کے لبرل شمار ہوتے ہیں۔ بے باک نظریات کی حامل ویب سائٹ ’ہم سب‘ کے مدیر ہیں۔ موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے سخت مخالف ہیں، اس کی انتہا یہ ہے کہ نواز شریف کو مارٹن لوتھرکنگ اور نیلسن منڈیلا تک کے درجے پر لے جاتے ہیں۔

محمد عامر خاکوانی (روزنامہ 92)

سینئر صحافی ہیں، ایکسپریس اور دنیا کے بعد اب وہ 92 کے شعبہ میگزین سے وابستہ ہیں، وسیع المطالعہ صحافی ہیں، دائیں بازو کا رجحان ہے اور سیاست، مذہب اور سماجیات کے مختلف معاملوں پر اپنی ایک الگ رائے رکھتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *