تحریر :رضوان طاہر مبین
1)
یکم دسمبر 2022ءکی سہ پہر ’پندرھویں عالمی اردو کانفرنس‘ کے افتتاحی اجلاس میں ’منج‘ پر موجود 21 معزز مہمانان گرامی خواتین وحضرات میں اکثر غیر ملکی ملبوسات زیبِ تن کیے ہوئے تھے، زہرا نگاہ ساڑھی، کشور ناہیید، نورالہدیٰ شاہ اور اباسین یوسفزئی شلوار قمیص اور منور سعید کے ’کرتے پاجامے‘ کے سوا باقی 16 مہمانان میں سے کوئی بھی مقامی ثقافت میں ملبوس نہ تھا۔
2)
اردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں صوبائی وزیر ثقافت سردارہ شاہ ’مستقل مزاجی‘ کو ’مستقبل مزاجی‘ کہتے رہے اور اوَدھ کو ’اوھود‘ کے تلفظ سے پکارتے رہے۔
3)
’اکیسویں صدی میں اردو شاعری‘ میں صوفیہ لودھی سے لفظ ’نظم‘ کو بار بار نَظَم سننا بہت گراں گزرا اور ایک مرتبہ وہ ’سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے‘ کو ”سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے“ بھی کہہ گئیں۔
4)
خبر خواں اور ٹی وی میزبان عبداللہ سلطان نے مِن وعن کو درست تلفظ سے پڑھا تو لطف آگیا، ورنہ اکثر احباب اِسے غلط تلفظ سے ’مَن وعن‘ پڑھتے ہیں، دوسری طرف محترمہ زہرا نگاہ نے لفظ عَنقا کو پیش سے ’عُنقا‘ پڑھا، تو ہم اسے اپنی غلطی سمجھے، لیکن ہمیں لغت میں’عُنقا‘ کا ثبوت مل سکا، اسی طرح ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب کا بڑبڑانے کو ’بُڑبُڑانا‘ بھی اردو لغت میں نہیں ملا۔
5)
بزم اردو کی ایک اور بیٹھک میں رضوان حسین نے کا پڑھا گیا یہ مصرع ذہن میں اٹکا ہوا ہے کہ ”ساداتِ فن پر داد کا صدقہ حرام ہے!“ لیکن انٹرنیٹ پر ٹٹولنے کے باوجود اس کا سرا نہیں پا سکے!
6)
ضیا الحسن صاحب نے افتخار عارف کی کلیات ’سخنِ افتخار‘ کی تقریب میں زبانِ زد عام مصرع ’یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں!“ کو ”یہ کون بول رہا ”ہے“ خدا کے لہجے میں“ پڑھ ڈالا۔
7)
حامد میر کی جانب سے قیام پاکستان کے حوالے سے بنگال اور صوبہ سندھ کا شکریہ ادا کیا گیا، لیکن پاکستان بنانے کے لیے ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے 56 فی صد ووٹوں کا تذکرہ حسب روایت گول کر گئے، جس پر کراچی کے سیاسی اور سماجی حلقوں نے شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
8)
ایک بیٹھک ’شوکت صدیقی کے سو سال‘ میں فاضل جمیلی نے شوکت صدیقی کے عام اسلوب اور اسے روزمرہ زبان کی عام زبان کہتے ہوئے اسے ’عامیانہ زبان‘ کہہ دیا۔
9)
ایک بیٹھک میں صحافی اویس توحید نے توجہ دلائی کہ صحافی کو خبر کا حصہ نہیں بننا چاہیے، جیسے ہم (2007ءمیں) جسے عدلیہ کی تحریک سمجھ کر شریک رہے، بعد میں پتا چلا کہ وہ تو جنرل کیانی نے کرایا تھا۔
10)
’تعلیم کی صورت حال‘ کے حوالے سے منعقدہ بیٹھک میں عقب پر متحرک برقی پردے پر ’تعلیم کی سورتحال‘ کا عنوان ابھرنے جیسی فاش غلطی نے اچھی خاصی کوفت سے دوچار کیا۔
11)
ایک بیٹھک میں مذاکروں کی میزبان عاصمہ شیرازی نے روایتی انداز میں کہا کہ فلانی زبان بہت میٹھی ہے اور اس کے بولنے والے بہت شیریں ہیں، تو ہمیں خیال آیا کہ شاید دنیا کی ہر زبان میں مٹھاس اور لوگ میٹھے ہوتے ہیں، کبھی یہ تو نہیں کہا جاتا کہ فلاں زبان بہت کڑوی یا تلخ ہے۔ اصل گڑبڑ تو جبر وظلم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جو کسی بھی زبان بولنے والوں کی طرف سے ہو، غلط ہی ہوتی ہے۔
12)
پندرھویں عالمی اردو کانفرنس کے آخری روز ’یوم سندھی ثقافت‘ کی مناسبت سے اختتامی اجلاس سے پہلے باہر ’لان‘ میں آدھے گھنٹے تک سازندے نہایت بلند آواز میں ساز بجاتے رہے، یہ پروگرام اردو کانفرنس کے طے شدہ بیٹھکوں میں شامل نہیں تھا۔
13)
عالمی اردو کانفرنس کے آخری روز نہ جانے کس طرح ایک شریک اپنے ہاتھ میں لپٹا ہوا سیاسی جماعت کا جھنڈا لے آیا، جب کہ داخلی دروازوں پر سخت پہرے اور تلاشی تھی۔
14)
’پندرھویں عالمی اردو کانفرنس‘ کے اختتامی اجلاس میں تمام شرکا کو اجرک اوڑھائی گئی، ساتھ ہی اس کانفرنس کا خصوصی انعام ایک سندھی ادیبہ کو دیا گیا، جو اردو کانفرنس کے تناظر میںنہایت اچنبھے کی بات تھی۔
15)
پندرھویں عالمی اردو کانفرنس میں اکثر بیٹھکوں کے درمیان میں ’گھُسے‘ چلے جانے سے بھی ادبی ماحول اور وقار پر بہت زیادہ حرف آیا۔ کاش آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ کو کوئی بتائے کہ جب محفل میں منچ اور بولنے کے اختیارات کسی کو تفویض کیے جاتے ہیں، تو پھر یہ اس محفل کے آداب کا بہت بنیادی سا تقاضا ہے کہ اس کی ذمہ داری اور اختیارات پر پورا بھروسا رکھا جائے۔ اچانک سے افتخار عارف کی بات کاٹ کر اشعار سننے کی فرمائش ہو یا شکیل عادل زادہ کی باتیں پسند نہ آنے پر اسٹیج پر مائک لے کر شور شرابا۔۔۔ یا پھر شرکا کو آڈیٹوریم سے باہر جانے کا کہنا ہو، یقیناً یہ آداب کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ ’صدر‘ آرٹس کونسل جیسے بلند منصب کو بھی زیبا نہیں دیتا۔
Categories