Categories
Exclusive KU انکشاف جامعہ کراچی سمے وار- راہ نمائی کراچی

خالد عراقی مقدمہ دست برداری سے مکر گئے، ”کٹس“ کی پراسرار خاموشی!

سمے وار (خصوصی رپورٹ)
جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد عراقی نے کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی (کٹس) کے مطالبات پر ٹالم ٹولی سے کام لیتے ہوئے کام یابی سے اپنے کام نکال لیے اور جامعہ کراچی کو کسی بحران سے نکال لیا۔ سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔ جس میں سب سے نمایاں اِبلاغ عامہ کے پانچ لیکچررز کے اپنے ہی تقرر نامے سپریم کورٹ سے معطل کرانے کے معاملے سے صاف مکر جانا شامل ہے۔
دیگر تفصیلات کے مطابق گذشتہ ماہ ”کٹس“ نے سلیکشن بورڈ منعقد کرانے کے ساتھ ساتھ اپنے تین مرکزی مطالبات ٹیچرز یونین کی جنرل باڈی سے منظور کرائے تھے اور ہڑتال موخر کرتے ہوئے چھے مارچ کا الٹی میٹم دیا تھا۔ جس میں ایک آدھ سلیکشن بورڈ کے انعقاد اور چند ایک واجبات کے ادائیگی کے سوا کوئی مطالبہ پورا نہیں ہوا اور ”کٹس“ کی جانب سے پراسرار خاموشی اختیار کر لی گئی ہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ 20 فروری 2023ءکی جنرل باڈی میں متفقہ طور پر منظور کردہ تیسری قرار داد جس میں اِبلاغ عامہ کے 2014ءکے اشتہار اور 2019ءکے سلیکشن بورڈ کے تحت منتخب پانچ لیکچررز کے تقرر ناموں کو سپریم کورٹ سے معطل کرانے کے حوالے سے تھی، جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ آج ہی کی تاریخ میں نہ صرف مقدمہ واپس لیا جائے گا، بلکہ ان کی تنخواہ اور اب تک کے تمام واجبات بھی ادا کیے جائیں گے۔ ذرایع ’سمے وار‘ کے مطابق ’کٹس‘ حکام نے اسی بات پر خوشی کے شادیانے بجائے کہ خالد عراقی نے کہہ دیا ہے کہ وہ مقدمے سے دست بردار ہوجائیں گے، انھوں نے معزز اساتذہ کرام کے وفود کے سامنے کئی بار اپنے اس عزم کو دہرایا، لیکن یہ سب زبانی کلامی تھا، عملاً انھوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا اور مقدمہ واپس لینے کے لیے انھوں نے آٹھ فروری کے سپریم کورٹ کے آرڈر کی تحریری صورت آنے کا انتظار کیا جو عذرلنگ کے سوا کچھ بھی نہ تھا، کیوں کہ ماہرین قانون کہتے ہیں کہ پٹیشنر کسی بھی مرحلے پر اپنی پٹیشن واپس لے سکتا ہے، لیکن خالد عراقی اور ’کٹس‘ حکام کا کہنا تھا کہ جیسے ہی تحریری فیصلہ آئے گا مقدمہ واپس ہوجائے گا۔ اس امر پر بڑے واضح خدشات تھے کہ تحریری فیصلہ آنے کے بعد دوبارہ کسی نکتے کے پیچنے چھپنے کی کوشش کی جائے گی اور دو روز قبل سامنے آنے والے تحریری فیصلے کے بعد کٹس ذرایع کی جانب سے مکمل طور پر خاموشی ہے، جب کہ ’سمے وار‘ کو معلوم ہوا ہے کہ وائس چانسلر نے مقدمہ واپس لینے سے مکرنے کا اشارہ دے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے مقدمہ واپس لینے کی بات کورٹ کا فیصلہ آنے سے مشروط کی تھی۔ اس لیے اب کورٹ کا فیصلہ دیکھ کر ہی کوئی فیصلہ کریں گے، اور اب واضح صورت حال ہے کہ اِبلاغ عامہ کے نئے اپوائنٹ شدہ پانچ لیکچررز کے پاس اساتذہ کے کسی گروپ اور کسی سیاسی گروہ کی سفارش موجود نہیں ہے۔ پانچوں امیدواروں کا انتخاب 2019ءمیں خالد عراقی کے آتے ہی سینڈیکیٹ سے کالعدم قرار دیتے ہوئے ری انٹرویو کا فیصلہ کیا گیا تھا، جس کے خلاف پانچ میں سے چار امیدواروں نے ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی جس کا فیصلہ 13مئی 2022ءکو آیا جس کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ ’سینڈیکیٹ‘ سلیکشن بورڈ کے میجورٹی ڈسیژن کے مطابق نیا فیصلہ لے، فیصلے پر عمل نہ ہوا تو پٹیشنرز نے توہین عدالت کی درخواست فائل کی، جس کے خلاف جامعہ کراچی سپریم کورٹ پہنچ گئی، جہاں اسے اسٹے آرڈر حاصل کرنے میں مکمل ناکامی ہوئی، لیکن وہاں یہ وقت گزارنے کے لیے کبھی کمیٹی کا عذر کرتی اور کبھی ری انٹرویو کی بات کرتی۔ اس دوران سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس عرفان سعادت کی سربراہی میں قائم دور کنی بنچ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے قرار دیا کہ ری انٹرویو کا فیصلہ درست نہیں ہے، اور پھر سینڈیکیٹ نے بالآخر اس معاملے کی منظوری دی اور چار پٹیشنرز کے ساتھ پانچ لیکچررز کو اپوائنٹمٹ لیٹرز جاری ہوگئے اور انھوں نے اپنی سابقہ ملازمتوں سے سبک دوشی کے بعد نئی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ اس دوران آٹھ فروری کو سپریم کورٹ اسلام آباد رجسٹری میں جسٹ اعجاز الحسن کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے جامعہ کراچی کے اس موقف کے بعد یہ اپوائنٹمنٹ لیٹرز معطل کردیے کہ جب انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ہائی کورٹ کی توہین کی کارروائی کے دباﺅ میں کیا گیا ہے، جب کہ لیکچررز کے وکیل نے کہا تھا کہ وہ توہین کی کارروائی نہیں کریں گے، ساتھ ہی ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو رمضان کے بعد کی سماعت میں جواب جمع کرانے کا حکم دیا کہ جب ایک معاملے کو سپریم کورٹ دیکھ رہی ہے تو آپ نے کیسے اس پر کارروائی کی۔
واضح رہے ڈاکٹر خالد عراقی نے ’کٹس‘ کی قیادت کے ہمرا پانچوں نومنتخب لیکچررز سے ملاقات میں یہ واضح کیا تھا کہ وہ جیسے ہی تحریری فیصلہ آتا ہے وہ یہ پٹیشن واپس لے لیں گے۔ ساتھ ہی انھوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ 2019ءمیں سینڈیکیٹ نے سابق وائس چانسلر کے تحریری نوٹ پر سلیکشن بورڈ کالعدم کیا تھا، ان کا اس میں کوئی کردار نہیں، اور اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا فیصلہ بھی قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ناصرہ کے رجسٹرار مقصود صاحب کا تھا، لیکن اس کے بعد تین مرتبہ سینڈیکیٹ میں ان لیکچررز کی منظوری نہ دیتے وقت ان کا رویہ کیا تھا؟ کیا اس وقت وہ وائس چانسلر نہیں تھے؟ بلکہ آٹھ فروری کو جب جامعہ کراچی نے یہ کہا کہ انھیں یہ فیصلہ نہیں کرنا تھا بلکہ وہ تو توہین عدالت کی کارروائی سے بچنے کے لیے یا اس کے خوف سے یہ سب کر رہے تھے تو کیا اس وقت بھی وائس چانسلر خالد عراقی نہیں کوئی اور تھا؟
قصہ مختصر بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ آٹھ فروری کا تحریری فیصلہ آیا اور عراقی صاحب نے پینترا بدلنا شروع کردیا۔ یہاں ’کٹس‘ قیادت کی ٹامک ٹوئیاں قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے نہ صرف ڈاکٹر خالد عراقی کے زبانی بیان پر بھروسا کیا، جس کی کوئی لاجک نہیں تھی، اور اب وہ بھی منہ چھپا رہے ہیں۔
’سمے وار‘ کو حاصل معلومات کے مطابق ’کٹس‘ کی سابقہ قیادت کرنے والے گروپ ’ٹیک‘ نے چھے مارچ کے الٹی میٹم پر جواب طلبی کی خاطر اجلاس بلایا گیا، جو کورم پورا نہ ہونے کے سبب ملتوی ہوگیا۔ جامعہ کراچی کی ایک سینئر خاتون استاد کا کہنا ہے کہ اِبلاغ عامہ کے نو منتخب لیکچررز کو عدالت جانے کی پاداش میں ’نشان عبرت‘ بنانے کا فیصلہ ہوا ہے، تاکہ یہ راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے اور جامعہ کراچی کے معاملات من مانے طریقے سے چلائے جاتے رہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *