Categories
Exclusive Karachi MQM انکشاف ایم کیو ایم جامعہ کراچی سندھ سیاست قومی تاریخ قومی سیاست کراچی مہاجرقوم

بشریٰ زیدی حادثہ: ڈرائیور نے کہا “اِسے کراسنگ پر پھینک دینا!”

سمے وار (مانیٹرنگ ڈیسک)
1985 میں سرسید کالج کی طالبہ بشریٰ زیدی کے حادثے کے حوالے سے فوٹور جرنلسٹ زاہد حسین بتاتے ہیں کہ وہ اس واقعے کے بعد شام تک صورت حال خراب ہوئی، کئی گاڑیاں جلی تھیں۔ وہ اس دن صدر سے لانڈھی جا رہے تھے کنڈیکٹر نے بقایا پانچ روپے مانگنے پر بھی نہ دیے، دوبارہ کہا تو قیوم آباد کے علاقے میں بس ہی میں ان سے مارپیٹ کی، پھر گاڑی روکی، ڈرائیور نے کہا اسے اتارو اور پھر انھیں اتارنے کی کوشش کی، انھوں نے مزاحمت کی تو بس ڈرائیور نے کہا اسے کراسنگ پر پھینک دینا، وہاں قسمت اچھی تھی کہ موبائل کھڑی تھی ، وہ اترے انھوں نے شکایت کی، لیکن پولیس نے کچھ نہیں کیا اور بس چلی گئی۔
مین کالج ناظم آباد کے اس وقت کے طالب علم ماجد شبیر بتاتے ہیں کہ انھیں ساڑھے نو بجے احتجاج اور واقعے کا پتا چلا، اس وقت ہر طرف طلبہ سراپا احتجاج تھے، میں بھی دوستوں کے ساتھ حصہ تھا، یہ ایک جذبہ نہیں ایک جنون تھا یہ ایک ایسی چیز تھی جسے سنھبالنا ممکن نہیں تھا، بہت بپھرا ہوا جم غفیر تھا، گورنمنٹ کالج ناظم آباد، سٹی کالج، پریمیئر کالج، جناح کالج، عثمانیہ گرلز، ویمن کالج ناظم آباد اور بعد میں شپ اونر بھی شامل ہوا، پھر بورڈ آفس سے لے کر گولی مار اور ڈاک خانہ تک کے تمام کالجوں کے طلبہ تھے۔ احتجاج پر تھے، شدید شیلنگ تھی اور ناظم آباد کے لوگوں میں ایک جذبہ تھا، وہ پانی کی بالٹی، گیلا تولیا اور نمک لے کر کھڑے ہوئے ہوتے تھے طلبہ کو دے رہے تھے۔
سرسید کالج میں نائب قاصد محمد قیوم کا کہنا تھا کہ مالی روشن کے ساتھ باہر گئے تو دیکھا بہت بچیاں باہر تھیں ایک بچی جو نجمہ تھی لیٹی ہوئی تھی اور لڑکیاں بھی اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھیں، پولیس اٹھا رہی تھی، طالبات نے انھیں روکا، تو ہم نے اسے اٹھایا۔
قارئین، یہ کراچی کی تاریخ کا وہ واقعہ تھا کہ جس کے بعد کراچی کی تاریخ میں خوں ریزی کا ایک عجبی دور شروع ہوا، اس شہر کی سیاست نے کروٹ لے لی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *