Categories
Exclusive Interesting Facts Karachi Society اچھی اردو اردوادب تہذیب وثقافت دل چسپ کراچی

روایتی اردو کے صدقے نان ختائی کی “خطا” درگزر کیجیے ناں!

تحریر: ڈاکٹر شاہد ناصر
چیزیں بیچنے کے لیے تو کوئی نہ کوئی طریقہ چاہیے ہوتا ہے، اب اگر “نان ختائی” والوں نے انگریزی کا سورج سوا نیزے پر ہوتے ہوئے بھی اردو کا عَلم بلند کردیا ہے تو اس پر تنقید کرنے کے بہ جائے دل کھول کر سراہا جانا چاہیے۔ نہ صرف اردو بلکہ اردو شعرا کا تذکرہ بھی دیا گیا ہے۔
لیکن ناقدین اس پر شکایت کر رہے ہیں کہ انھوں نے روایتی شعرا میں میر تقی میر کو تو لیا نہیں، چلیے اس پر شکر کیجیے کہ غالب کو لے لیا، اقبال کو لے لیا، فیض احمد فیض کو نہیں لیا تو کیا ہوا؟
جگر مراد آبادی کے ساتھ ناصر کاظمی کو لے لیا۔ یہ شاید ان کے مالکان کی پسند ہوگی، البتہ ایک خفیف سا خیال ہے کہ روایتی شعرا کہنا شاید ادب کے ناقدین کے لحاظ سے غیر متوازن لگتا ہے، مگر یہ تو سوچیے صاحب یہ منڈی ہے منڈی!
یہاں دھندا چل رہا ہے، اگر اس دھندے میں تاجر نے اردو اور اردو شعرا کا ذکر بھی کردیا ہے تو شکر کیجیے کہ چلیے اسی بہانے ہی سہی!
ورنہ باجا بجاتا “پیک فرینس” سے تو بہتر ہے اپنے غالب، اقبال، جگر اورناصر کاظمی پہ سہی۔ امید رکھتے ہیں کہ اس سے اردو اور اردو ادب کا کچھ تو بھلا ہوگا۔ بسکٹ ہی کے بہانے بچوں یا بڑوں کے کان میں ان شعرا کے نام ہی پڑ گئے۔ اردو کا نام ہوگیا، شاعری کا ذکر ہوگیا۔ اس دور بدحال میں کیا اتنا بہت نہیں ہے۔
رہی بات اس کی کہ یہ اشتہار بھی نان ختائی والوں نے اردو کے بہ جائے ایک انگریزی اخبار “دی نیوز” کو دیا۔ تو صاحب اسے بھی ایک سہو اور خطا سمجھ کر جانے دیجیے، اس کو اس طرح دیکھی کہ انگریزی اخبار کے قارئین کے سامنے بھی جب پورے صفحے پر خستہ بسکٹ کے اشتہار کے ساتھ شیریں اردو آموجود ہوئی ہوگی تو یقیناً وہ اردو کے واسطے کچھ قدم ضرور بڑھائے گا، انگریزی داں اور انگریزی اوڑھنے بچھونے والوں کو اسی بہانے اردو کا پیغام پہنچ گیا۔
سو ہم تو کوئی تنقید کیے بغیر حسن ظن رکھتے ہوئے نان ختائی والوں کو مبارک باد دیتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ آئندہ بھی ہمیں ایسے ہی قومی زبان اردو اور اردو ادب وتہذیب کے فروغ کے خوش گوار تجربات ہوتے رہیں گے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *