تحریر: رضوان طاہر مبین
گاڑی والے نے دھیان نہیں کیا تھا، بروقت بریک لگنے کے باوجود راہ گیر کو ضرب لگ ہی گئی تھی، یکایک بہت سے لوگ اس کے اردگرد جمع ہوگئے، گاڑی والے کو لعن طعن کرنے لگے، گاڑی والا بھی تھا کہ شرمندہ ہوا جاتا تھا، چوٹ زیادہ نہ تھی، آخر کو معافی تلافی ہوگئی۔
اگلے ہی دن ایک اور گاڑی والے سے زبردست چُوک ہوئی، بدبخت نے اسے کچل دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اندھا ہے، وہ بری طرح بلبلا کر رہ گیا تھا، اس اچانک افتاد پر اس کے منہ سے ایک زور دار چیخ نکلی اور وہ کراہتا ہوا سڑک کے دوسرے کنارے کو دوڑا، مگر اس بے بسی میں اس نے سوچا بھی نہیں کہ وہ آخر جا کہاں رہا ہے؟
اسے حیرت یہ ہوئی، گاڑی والا تو گاڑی والا، سڑک پر موجود کسی ایک شخص نے بھی اس سے ذرا سی بھی ہمدردی کی ضرورت محسوس نہ کی، بس اس کی ایک غیر معمولی چیخ پر ایک نگاہ ڈالی اور پھر سب نے اپنے اپنے راستے لیے۔۔۔
آخر وہ آنکھوں میں آنسو لیے، خود ہی لنگڑاتا لنگڑاتا ایک محفوظ کونے میں جا بیٹھا، اور ہانپتا کانپتا اپنے زخموں کو دیکھنے لگا، کوئی مرہم پٹی تو بہت دور کی بات تھی، اسے تو یہاں کوئی دیکھنا تک بھی گوارا نہیں کر رہا تھا، اور نہ ہی اسے خود اپنے اس کاری گھائو کا کوئی علاج پتا تھا۔ شاید اب اُسے اسی طرح سسک سسک کر ہی موت کے منہ میں جانا تھا ۔ ۔ ۔
کیوں کہ
وہ شہر کی سڑک کا ایک ۤآوارہ کتا تھا ۔ ۔ ۔ !
Categories