Categories
Karachi Salman Naseem Shad Society ایم کیو ایم سیاست قومی تاریخ قومی سیاست کراچی

دُہرا معیار ملک کے لیے نقصان دہ ہے!

تحریر سلمان نسیم شاد
کہتے ہیں جس معاشرے میں جُھوٹ، بَدزَبانی گالی گَلوج اور عدم برداشت عام ہو جائے وہاں کبھی امن و سکون نہیں ہو سکتا، ایسے معاشرے صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اس بے ہنگم شور کو ’’ماحولیاتی آلودگی“ قرار دے کر اس کے خلاف باقاعدہ مہم چلاتے ہیں۔

اختلاف رائے ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ خواہ کوئی بھی معاملہ ہو، موقع ہو یا مقام۔ آپ کو اپنی انفرادی سوچ و خیال کے مطابق اپنے تحفظات اور اعتراضات پیش کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا، ‏جس سماج یا ریاست میں اختلاف رائے برداشت کرنے کا حوصلہ نہ ہو وہ معاشرہ فاشسٹ کہلاتا ہے۔‎ دوسرے لفظوں میں طاقت کے بل بوتے پر کسی معاشرے یا قوم پر استبداد اور آمریت مسلط کرنا ’’فاشزم‘‘ ہے۔ جیسے کراچی کی سب سے بڑی سیاسی تنظیم “متحدہ قومی موومنٹ” کو تقسیم در تقسیم کیا اور یہ عمل کن کے احکامات پر ہوا وہ اس آپ سب جانتے ہیں۔ نواز شریف جو ایک سزا یافتہ مجرم ہیں ان کی تقریر پر پابندی فی الفور ختم کردی مگر متحدہ کے بانی اور قائد الطاف حسین پر وہ پابندی آج تک قائم ہے۔ آپ کو الطاف حسین سے لاکھ اختلافات ہوں مگر آپ کسی کو پابند سلاسل نہیں کرسکتے۔ اسی طرح اختلاف رائے کا حق کسی کے لئے بھی رکھ سکتے ہیں۔

مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اختلافِ رائے کا جواب دلیل سے دیا جائے نہ کہ گالی گلوچ اور فحش گوئی سے۔ ہر انسان دوسرے انسان کے بنائے گئے ذہنی سانچے میں ڈھل ہی نہیں سکتا، طبیعتوں کا اختلاف فطری امر ہے، البتہ برداشت اور احترام انسانی اختیار میں ہے. مگر بدقسمتی سے وطن عزیر میں ہمارے عوام کے اندر عدم برداشت ناپید ہوکر رہ گیا ہے۔ جس کی تازہ مثال ہمارا موجودہ سیاسی کلچر ہے۔ جہاں نظر دوڑائیں تو ہر طرف ایک طوفان بدتمیزی مچا ہوا ہے۔ یوں تو پاکستانی سیاست میں ہمیشہ سے ہی مخالفین کی پگڑیاں اچھلتی رہیں۔ ان کی ذات پر حملے ہوتے رہے۔ مگر پاکستان تحریک انصاف کے وجود میں آنے کے بعد اس میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا۔
بدقسمتی سے ریاست مدینہ اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والے عمران خان نے ہماری نئی نسل کی ایسی پرورش کی ہے کہ کوئی بھی ان سے اختلاف رائے کرتا نظر آئے تو ان کی گالی بریگیڈ کی طرف سے غلیظ اور گندی گالیوں کا نذرانہ پیش کیا جانا اب ان کی جماعت کا وتیرہ بن چکا ہے۔

الیکٹرانک میڈیا ہو، سوشل میڈیا، یا عوامی جلسے جلوس۔ آپ جہاں نظر اٹھا کر دیکھیں وہاں ان کے لیڈران اور کارکنان کی تیز و تند زبانیں نہ صرف مخالفین کیخلاف زہر اگلتی نظر آئیں گی، بلکہ ان کی ذات پر انگلیاں اٹھاتے ہوئے انھیں ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی گالیوں سے بھی نوازا جاتا ہے۔

عمران خان اور ان کے حامی جو خود مخالفین کے خلاف زہر اگلنے، ان کی پگڑیاں اچھالنے، ان کی حب الوطنی پر سوال قائم کرنے میں تو کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے، لیکن جب کوئی دوسرا اُن کے نظریات سے اختلاف کرتا نظر آئے یا انہیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی انسان کی زبان دراصل دل کا آئینہ ہے۔ اور دل وہ لوتھڑا ہے جو اگر ٹھیک ہوگا تو پورا جسم توانا ہوگا اور اگر وہی خراب ہوا تو پورا جسم بیمار ہوگا۔

آج ہمارا ملک ایک ایسے معاشی بحران سے گزر رہا جہاں اس کے دیوالیہ ہونے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ آئی ایم ایف نے ہم پر ایسی کڑی شرائط عائد کر رکھی ہیں کہ ہم ان شرائط پر دستخط کرنے کہ بعد پیٹرولیم مصنوعات پر فوری طور پر سبسڈی ختم کرنا پڑی۔ جس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایک ایسا طوفان اٹھا۔ جس میں ایک عام آدمی بھی اس کے بوجھ تلے دب کر رہ جائے گیا۔ اور اگر ہم آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل نہیں کرتے تو ہمارے پاس اتنا زر مبادلہ نہیں تھا کہ ہم آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں کی اقساط چکا سکیں۔ اور کسی بھی ملک کے دیوالیہ ہونے کی یہ ہی سب سے بڑی نشانی ہوتی ہے۔ آج ہم تاریخ کے اس نازک دور سے گزر رہے ہیں جہاں ہمیں آپسی چپقلش کو بھلاتے ہوئے ارض پاکستان کی سلامتی و بقاء کے لیے ایک قوم بن کر متحد ہونا پڑے گا۔

یاد رکھیں ان مخدوش معاشی حالات میں ہمارے دشمن ہم پر بھرپور نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ آج جنگیں ٹینکوں اور جدید ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتیں۔ بلکہ دشمن ممالک کی اب یہ کوشش ہوتی ہے کہ جس ملک کو تباہ کرنا ہو اس ملک کی معیشت کی کمر توڑ دو۔ اس طرح ملک اپنے آپ تباہ ہوجاتے ہیں۔ اس ہی کو اکنامک وار کہا جاتا ہے۔

اس نازک اور کڑے وقت میں ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو چاہیئے کہ وہ ملک میں بھائی چارگی کی فضا قائم کرنے کی کوششیں کریں۔ قوم کو جوڑ کر متحد کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ مگر بدقسمتی سے ان کٹھن حالات میں بھی یہاں نفرتوں کی فصیلیں بوئی جارہی ہیں۔ اپنے سیاسی مفادات کے خاطر قوم کو تقسیم کیا جارہا ہے۔
ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جانے والے نفرت کے ان ٹھیکیداروں سے ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ہماری قوم پہلے ہی مذہبی، لسانی و فقہی گروہوں میں تقسیم ہے۔ خدارا قوم کو مذید تقسیم نا کریں ، اخبارات کو اشتعال انگیز بیانات سے سیاہ کرکے عوام کا دماغ خراب مت کیجیے، جلسے جلوس میں اور نیشنل میڈیا پر جذباتی اور شعلہ بیاں تقریر کرکے قوم کے نونہالوں کو تباہی کے راستے پر مت ڈالیے۔ اس سے آپ پاکستان کو کمزور کررہے ہیں۔ یہ ملک ہے تو ہم ہیں۔ آئیں اور اس ملک کی خاطر اپنے تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک قوم بن کر ملک کو اس مالی بحران سے نکالنے میں سر جوڑ کر بیٹھ جائیں۔ اور اقتدار کو انا کا مسئلہ بناتے ہوئے اس مشکل وقت کو مزید مشکل تر نہ بنائیں۔ شخصیت پرست بنے سے پہلے وطن پرست بننے کی اشد ضرورت ہے۔ اور براہ مہربانی قومی مفادات کو ذاتی مفادات سے بالاتر رکھیں۔ تاکہ پاکستان کا پرچم سدا سر بلند رہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *