سمے وار (خصوصی رپورٹ)
موجودہ صوبائی نگراں وزیر اطلاعات اور آرٹس کونسل کے مستقل صدر یا سیکریٹری رہنے والے محمد احمد شاہ نے 16 ویں عالمی اردو کانفرنس میں سے بہ تدریج اردو کو نکالنے کے ساتھ ساتھ اب پہلی بار آئین کی دفعہ 251 کے تحت نفاذ اردو کی قرارداد نکال باہر کردی۔
واضح رہے 2008 سے شروع ہونے والی عالمی اردو کانفرنس ایس ایچ ہاشمی پینل کا کارنامہ تھی، جو نہایت پروقار موقع ہوتی تھی لیکن اب اسے ہاشمی پنیل کی طرح احمد شاہ نے نگل لیا، پچھلی کانفرنس میں وہ “بانی اردو کانفرنس” کہہ کر پکارے جاتے رہے اور اب انھوں نے عالمی اردو کانفرنس کی نفاذ اردو کی قرار داد کو حذف کرکے اپنی روایتی ذہنیت کا ثبوت دے دیا ہے۔ ممکنہ طور پر اس کے پس پشت آرٹس کونسل اور اردو کانفرنس میں چند سالوں سے احمد شاہ کے نزدیک آنے والے متعصب نام نہاد ادبی شخصیات ہیں، جن کے بعد اردو کانفرنس میں مضحکہ خیز طور پر پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی اور نہ جانے کون کون سے موضوعات پر میلے لگائے جا رہے ہیں اور احمد شاہ کی اس بے لگامی کو کوئی روکنے والا نہں ہے!
حیرت کی بات یہ ہے کہ اردو بولنے والوں کے مرکزی شہر میں ہونے والی اس کانفرنس میں کسی ایک ادیب، دانش ور یا شاعر نے نفاذ اردو کی قرارداد حذف کرنے پر کوئی صدائے احتجاج بلند کیا اور نہ ہی کراچی شہر کے کسی اخبار میں اس پر نوٹس لیا گیا ہے۔ اخبارات نے روایتی خبروں میں ان قراردادوں کو شایع کیا اور اس شرم ناک اور قابل مذمت حرکت پر کوئی لفظ تک نہیں لکھا ہے۔
کراچی آرٹس کونسل میں 3 دسمبر 2023 تک جاری رہنے والی “سولہویں عالمی اردو کانفرنس” کے اختتام پر منظور ہونے والی قراردادیں مندرجہ ذیل ہیں، جس میں اردو کے نفاذ اور فروغ کے لیے کہیں کوئی بات نہیں کی گئی:
* فلسطین کی آزادی کا مسئلہ حالیہ دنوں میں غزہ کے پر تشدد واقعات کی ہمرکابی میں ایک دفعہ پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت، بربریت کی نئی مثالیں قائم کر رہی ہے۔غزہ تقریباً برباد ہو چکا ہے، لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے، ہزاروں موت کی آغوش میں جا چکے ہیں۔ ہم نہ صرف فلسطین کے عوام، وہاں کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ہم خود بھی اپنی تحریروں اور اپنی تخلیقات کے ذریعے فلسطین کے حق میں آواز اٹھاتے رہیں گے، بلکہ ہماری خواہش اور مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ اور موثر عالمی طاقتیں اسرائیلی جارحیت کو روکنے کی اور فلسطین کو ایک پر امن خطہ بنانے کی ذمہ داری کو پورا کریں۔
* ہم ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی دنیا کے مختلف خطوں میں، بالخصوص کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہیں، اور ان سب خطوں کے عوام کے حقِ خود ارادیت اور ان کے آزادانہ اورجمہوری ماحول میں رہنے کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔
*تیسری قرارداد میں کہا گیا کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی پچھلی اور موجودہ عالمی اردو کانفرنسوں کے درمیان آرٹس کونسل نے پاکستان لٹریچرفیسٹول کے نام سے لاہور، آزاد کشمیر اور سکھر میں کانفرنسوں کے انعقاد کا جو مستحسن اور کام یاب تجربہ کیا ، ہم اس پر آرٹس کونسل آف پاکستان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
ان کانفرنسوں میں عوام کی شرکت اس امر کا غماز ہے کہ لوگ ثقافت اور ادب کو اہمیت دیتے ہیں اور مختلف زبانوں میں لکھے جانے والے ادب کو قبولیت سے سرفراز کرتے ہیں۔
*چوتھی قرارداد میں کہا گیا کہ پاکستان کی آبادی کا تقریباً ساٹھ فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ حکومتوں اور وسائل یافتہ اداروں کا فرض ہے کہ وہ اس نسل کو اپنی صلاحیتیں اجاگر کرنے اور ملکی ترقی میں حصہ ڈالنے کے بہترین مواقع مہیا کریں۔ آئین کے مطابق سولہ سال تک کی تعلیم کو لازمی اور مفت بنانے کے فرض کو پورا کریں۔ تعلیم کا بجٹ جو اس وقت جی ڈی پی کے دو فی صد سے بھی کم ہے، اس میں اضافہ کیا جائے۔
*پانچویں قرارداد میں پاکستان کی مختلف زبانوں اور ان کے ادبیات کی ترقی کا کام غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میں حکومتوں کی مالی اور انتظامی ذمہ داریوں کی تکمیل ناگزیر ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جامعات میں اور ان کے باہر بھی تراجم کے ادارے قائم کیے جائیں۔
*چھٹی قرارداد میں کہا گیا کہ ملک میں کتابوں اور رسائل و جرائد کی اشاعت مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے نتیجے میں کاغذ کی درآمد کہیں زیادہ مشکل ہوتی جارہی ہے۔ نتیجتاً چھپنے والی کتابوں کی قیمتیں روز افزوں ہیں۔ پہلے ہی کتابوں کی تعداد اشاعت چار پانچ سو تک گر گئی تھی۔ اب پبلشر کتابوں کے ڈیجیٹل ایڈیشن چھاپنے پر مجبورہیں جو عموماً پچاس ساٹھ کی تعداد میں بھاری قیمت پر بکتے ہیں۔ ہم پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک میں کاغذ کے کارخانے لگائے جائیں، اور جب تک ایسا نہ ہو سکے اس وقت تک کتابوں کی اشاعت کے لیے درآمد شدہ کاغذ پر سبسڈی دی جائے۔
*ساتویں قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ کتابوں اور رسائل کی اندرون ملک اور بیرون ملک ترسیل مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ خاص طور سے بیرون ملک کتابیں اور رسائل بھیجنا ناممکن ہو چکا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مطبوعات کی ترسیل کے نرخ اس حد تک کم کیے جائیں کہ ایک سے دوسرے شہروں میں چھپنے والے یا بیرون ملک چھپنے والے علمی اور ادبی سرمائے سے استفادہ ممکن اور آسان ہو سکے۔
*آٹھویں قرارداد میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان میں کتب خانے بحیثیت مجموعی انتہائی ناگفتہ بہ حالت تک پہنچ چکے ہیں۔ تعلیمی اوردیگر اداروں کے کتب خانوں میں نئی کتب کا اضافہ بہت مشکل ہو چکا ہے۔ ہم اس قرارداد کے ذریعے مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور متمول اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کتب خانوں کو از سرِ نو زندہ کرنے اور زندہ رہنے کے وسائل فراہم کریں۔
*نویں قرارداد میں کہا گیا کہ ہم پاکستان کی سب زبانوں او ران کے ادبیات کی ترقی کے نہ صرف خواہش مند ہیں، بلکہ اس کو قومی یک جہتی کے لیے ناگزیر بھی سمجھتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے اس ضمن میں آئین میں دی گئی شقوں پر لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے عمل درآمد کیا جائے۔
عالمی اردو کانفرنس میں کہا گیا کہ اردو کانفرنسوں اور پاکستان لٹریچر فیسٹولز سے پاکستانی معاشرے کا جو بہترین تاثر ہوتا رہا ہے، وہی پاکستان کا مستقل چہرہ بنا رہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہم آرٹس کونسل کی آئندہ کی پیش قدمیوں کی امید رکھتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کاوشوں کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کی جاتی رہے۔
Categories