Categories
انور مقصود سعد احمد قومی تاریخ کراچی مہاجرقوم

آخر انور مقصود کو کراچی کا ’کھویا‘ کیوں پسند نہیں؟

تحریر: سعد احمد
گذشتہ دنوں ممتاز ٹی وی میزبان انور مقصود صاحب نے کوئٹہ میں پاکستان لٹریچر فیسٹول میں ایک سوال کے جواب میں اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ انھیں ’بلوچستان کا کھویا پسند ہے‘ جب ان سے محو گفتگو عدنان صدیقی نے پوچھا کہ ’کھویا تو پنجاب کا اچھا ہوتا ہے؟‘ تو انھوں نے کہا کہ دراصل انھیں بلوچستان کا کھویا ہوا آدمی پسند ہے!
کئی دن گزر گئے لیکن ویڈیو سے لے کر ’میمز‘ تک، اس بیان کا بہت تذکرہ ہو رہا ہے، لیکن مجھے حیرت ہے کہ انور مقصود اور ان جیسے اور بھی بے شمار شخصیات کو اپنے شہر کراچی کے کھوئے ہوئے آدمی پسند نہ آئے! اس پسند کے لیے اور اس کے اظہار کے لیے انھیں بلوچستان جا کر کہنا پڑا، جہاں پنجاب سے آئے ہوئے نہتے مزدوروں کو شناخت کرکے مارا جاتا ہے اور دہشت گردیاں کی جاتی ہیں، لیکن انھیں وہاں کا کھویا ہوا آدمی پھر بھی پسند ہے۔ کراچی جس نے پاکستان بنایا، جو ناکردہ گناہوں کی سزا کے طور پر فوجی، پولیس اور رینجرز کے آپریشن جھیل رہا ہے، جس کی سیاست پر پابندی عائد ہے، جس کے لڑکے بھی لاپتا ہیں، لیکن افسوس انور مقصود کو کبھی ایک لفظ ان کے لیے کہنے کی زحمت نہ ہوئی کہ انھیں کراچی کا کھویا ہوا نوجوان بہت پسند ہے۔ انھوں نے جب بھی مہاجروں یا کراچی والوں کا اظہار کیا تب ہمارا دل ہی دکھایا اور یہ کہا کہ مہاجر شناخت نے نقصان پہنچایا ہے۔ کاش انور مقصود نے عمر کے آخری حصے ہی میں اپنی قوم کے لیے فقط جینے اور انصاف کا حق مانگ لیا ہوتا، مگر یہ بھی شاید کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ پورے ملک کے لوگوں کی طرح انھیں بھی بلوچستان کا غم ہے، اپنے شہر اور اپنی قوم کے لیے وہ گونگے، اندھے اور بیرے ہیں۔ میں معذرت چاہتا ہوں، ان کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرنے کے لیے، لیکن یہ تلخ حقائق ہی ہیں۔ ہم انور مقصود کو مہاجر فخر کے طور پر یاد کرتے ہیں کریں گے بھی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ مہاجروں کا مقدمہ کبھی لڑے ہی نہیں۔ انھوں نے ہمیشہ دل ہی دکھایا۔ بلکہ آج کے مہاجروں کے بڑے نام اس حوالے سے یک ساں دکھائی دیتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *