Categories
Exclusive Interesting Facts Rizwan Tahir Mubeen انکشاف رضوان طاہر مبین

’ایکسپریس‘ میں ہماری کمائی!

تحریر: رضوان طاہر مبین
2012ءتا 2024!
روزنامہ ایکسپریس کے ان 12 سالوں میں ہم نے بہت کچھ سیکھا، سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ ہم اپنے شعبے میں سب سے جونیر تھے، سو ہر قدم پر ہی ہمارا کچھ نہ کچھ جہل مٹتا جاتا، ورنہ ہمارے پاس فقط ڈیڑھ سال کی عملی صحافت اور چار سال کی مضمون نگاری کا ہی تجریہ تھا۔ 2008ءمیں شروع ہونے والی 300 روپے کے عوض مضمون نگاری کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا تھا کہ یہی تحریریں ہمارا ’ایکسپریس‘ میں تعارف اور پھر یہاں جگہ بنانے کا باعث بنی تھیں۔
جب ہم ’ایکسپریس‘ آئے تو یہاں جناب اقبال خورشید ایک بہت مشفق، بے تکلف، کھلے ڈلے اور نہایت کرشماتی سینئر ساتھی کے طور پر ملے، قبلہ عارف عزیز ایک تیکھے اور نہایت تخلیقی شخصیت کے مالک تھے، ہماری تحریر میں بہتیری الجھنیں انھی کی نشان دہی پر سلجھ سکیں، ندیم سبحان ایک خاموش طبع اور سنجیدہ ساجھے دار رہے، حمیرا اطہر نے تو 2008ءمیں ہمارا پہلا مضمون شائع کیا تھا، سو ان کی شفقت اور تدریس بھری صحبت بھی ملی، مگر بس تبرکاً، کیوں کہ وہ جلد ہی یہاں سے مستعفی ہوگئی تھیں، بعد میں مرزا ظفر بیگ بھی بعد میں ہماری میگزین کی ٹیم حصہ بنے، وہ ہمارے شعبے کا ایک شفیق کردار، بہت سے منفرد تجربات سے آراستہ، انگریزی ترجمے سے لے کر خالص ہندی الفاظ اور رسم الخط کی جان کاریوں تک، بہت کچھ چٹکیوں میں بتا دیتے تھے۔ رہے عثمان جامعی صاحب، تو وہ ایک مشفق باس رہے، اُس وقت بھی، جب احفاظ صاحب ہمیں ذرا ’رندا لگا کر‘ تراشتے، تو عثمان جامعی کی صورت ہمارے لیے ایک پناہ تھی، کہ احفاظ صاحب کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے ہم اُن کے جانے کے بعد اپنے صفحے کا پروف عثمان صاحب کو دکھا دیتے، اگر لکھنے کے لیے کوئی موضوع ہو تو انھی سے منظور کرالیا، اب اگر کوئی چیز چَھپنے کے بعد بھی احفاظ صاحب کو ہماری کلاس لینی مقصود ہوتی تو اس کا نزلہ ہمارے ساتھ ساتھ عثمان صاحب ہر بھی گرتا کہ آپ کو یہ کروانا چاہیے تھا، یہ کہنا چاہیے تھا وغیرہ۔
ہمارے ایکسپریس میگزین کے فوٹوگرافر اشرف میمن بھی قطعی نظرانداز نہیں کیے جا سکتے، بالخصوص وہ ہم جیسے ’بے سوار‘ سب ایڈیٹر کو ’اسائمنٹ‘ پر اکثر اپنی اسکوٹر پر ساتھ لے جاتے اور لے آتے اشرف میمن بھی ایک آدمی کے اندر کئی آدمیوں کے مصداق ایک شناور، صاف گو اور کھری طبیعت کا مالک ہے۔
ایکسپریس میگزین کے لیے مضامین، فیچر اور انٹرویو کے ساتھ ساتھ ہم نے ادارتی صفحے پر کئی کالم بھی لکھے، دو مرتبہ معروف کالم نگاروں کو جوابی کالم بھی داغے، وہ ’شاہ جی‘ نے چھاپے بھی خوب! جس پر ہمارے سینئر بھی کہتے کہ بہت جرا¿ت دکھا رہے ہو، وہ دراصل ہمارا بچپنہ تھا، تبھی ہم نے لاہور سے تیار ہونے والے میگزین کے ایک صفحے پر ’صد لفظی کتھا‘ بھی لکھنا شروع کی، جو وہاں سید عاصم محمود کی عنایت سے مستقل جگہ پاتی رہی۔
اس تمام عرصے میں ساڑھے پانچ سو سے زائد تحریریں شائع ہوئیں، جن میں سیکڑوں مضامین، 100 سے زائد انٹرویو، اتنی ہی صد لفظی کتھا، درجنوں فیچر، دسیوں کالم و بلاگ اور بُہتیری خصوصی خبریں بھی شامل رہیں ایکسپریس میں ہمیں کھل کر اپنی بات کہنے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا پورا پورا موقع ملا یہیں سے وابستگی کے عرصے میں ’کراچی یونین آف جرنلسٹس“ سے لے کر ’کراچی پریس کلب‘ تک کی رکنیت حاصل ہوئی۔
’ایکسپریس‘ ملک کا ایک بڑا اخبار ہے، اس کے توسط سے آج ہمیں کچھ پڑھنے والے احباب پہچان لیتے ہیں، چند ایک سراہتے ہیں، جب کہ کچھ ہماری تحریروں پر رشک کا اظہار بھی کرتے ہیں، کبھی کبھی ہماری بات کا لوگوں پر کچھ اثر بھی ہو جاتا ہے، اگر یہ سب بھی نہ ہو تو ہمیں قلبی اطمینان ہے کہ ہم اپنا کام کر رہے ہیں، تو یہ ہماری ’کمائی‘ ہی تو ہے!
کیا کہا تنخواہ کا ذکر نہیں کیا، اس کے لیے اگلا بلاگ!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *