تحریر: ڈاکٹر شاہد ناصر
آج عام انتخابات کو ایک سال مکمل ہونے پر حکم راں اتحاد جہاں “یوم خوشی” منا رہا ہے، وہیں تحریک انصاف اس دن پر احتجاج کر رہی ہے۔ حکومت پاکستان نے “ڈان” کے سوا تمام بڑے اردو انگریزی اخبار کو پورے صفحہ اول کا ایک اشتہار دیا ہے۔ اب “ڈان” نے شاید یہ قبول نہیں کیا یا پھر انھیں خود محروم رکھا گیا، یہ واضح نہیں، تاہم آج کے دن آزادی صحافت اور اصولوں کا علم بردار ڈان جو ادارتی شذرہ لکھ رہا ہے، وہ بہ ذات خود سوالیہ نشان ہے۔
پاکستان میں صحافتی اصولوں کے قطب مینار پر ٹنگے ہوئے ڈان نے عام انتخابات کے ایک سال پورے ہونے پر جہاں ایک سیاسی جماعت کے انتخابی نشان چھینے جانے اور اس کے خلاف ہونے والی کارروائیوں پر رونے گانے کیے ہیں، وہیں بطور کراچی والے کہ شدید افسوس ہوا کہ ڈان جیسے معتبر میڈیا گروپ کا کراچی میں مرکز ہونے کے باوجود اِسے 2016 سے کراچی میں جاری بدترین ریاستی جبر دکھائی نہیں دیا، اس حوالے سے ڈان بھی باقی نام نہاد صحافتی اداروں کی طرح ہی دکھائی دیتا ہے۔
“ڈان” نے عام انتخابات میں عمران خان کی جماعت کے لیے تو خوب لکھا ہے، لیکن ایک اور سیاسی جماعت بھی تو اس دن ریاستی عتاب کا شکار ہوئی ہے اور اس کا بھی انتخابی نشان تو درکنار اس کی پوری سیاسی جماعت کچل کر رکھ دی گئی ہے، اس جماعت کے امیدوار بھی تو مختلف نشانوں پر امیدوار بنائے گئے تھے، ان کو تو گھروں سے اٹھا لیا گیا تھا، اور کسی طرح بھی دو تین روز پہلے بتائے گئے امیدواروں کو ایک پوسٹر اور بینر کی آزادی نہی دی گئی تھی، جب کہ عمران خانی امیدوار تو دھڑلے سے پوسٹر بینر اور مہم چلا رہے تھے، اگرچہ انھیں کارنر میٹنگوں کی چھوٹ کم کم دکھائی دی، لیکن یہ کوئی انصاف کی بات تو نہیں ہے کہ آپ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت رہنے والی “متحدہ قومی موومنٹ” کے قائد الطاف حسین کے امیدواروں سے سلوک پر ایسے چپ سادھ لیجیے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، مانا اس وقت عمران خان ملک بھر میں مقبول ہوں گے، ان کی جماعت ملک گیر ہوگی، لیکن الطاف حسین بھی تو ملک کی تیسری بڑی جماعت کے قائد رہے آج بھی یہ چوتھی بڑی جماعت ہے، اس کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ، دستوری حقوق کی پائمالی پر ڈان جیسے بڑے صحافتی ادارے کے ایک لفظ ایک سطر کا بھی حق نہیں بنتا تھا؟؟
تاریخ تو یاد رکھتی ہے، تاریخ تو یاد رکھے گی کہ کراچی والوں کے لیے “ڈان” بھی ایک مخصوص چشمہ لگائے ہوئے تھا،
مہاجروں کے واسطے نام نہاد انسانی حقوق کمیشن کی طرح “ڈان” کو بھی اونچا سنائی دیتا تھا!
افسوس کراچی کے لیے ڈان گروپ بھی اندھا ہے، ڈان کو بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا!
افسوس افسوس افسوس!!
Categories
کراچی والوں کے لیے “ڈان گروپ” بھی اندھا ہے؟
