Categories
Cricket Exclusive Interesting Facts Karachi انکشاف سندھ قومی تاریخ قومی سیاست کراچی مہاجرقوم

الوک کپالی کا متنازع کیچ: واپس بلانے سے کپتان نے روکا، افسوس ہے!

سمے وار (مانیٹرنگ ڈیسک)
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور مایہ ناز وکٹ کیپر راشد لطیف نے گذشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی چینل کو اپنے ایک انٹرویو میں ہلکے پھلکے انداز میں کہا ہے کہ میرے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوئی، میری حرکتیں ہی ایسی تھیں۔ انھوں نے اس بات کا جواب تابش ہاشمی کے اس سوال کے جواب میں دیا، جب ان سے کہا گیا کہ کیا ان سے ناانصافی ہوئی ہے۔ راشد لطیف نے کہا کہ 1996ءکے ورلڈ کپ کا بنگلور میں ہونے والے کوارٹر فائنل کی شکست ان کے ذہن پر اتنی سوار رہی کہ نیند سے اچانک چونک کر اٹھ جاتا تھا، ہم بہت سے اہم میچ ہارے، لیکن وہ شکست آج تک پریشان کرتی ہے۔ ہمیں وہ میچ ہارنا نہیں چاہیے تھا، ہمیں سعید انور اور عامر سہیل نے بہت اچھا آغاز فراہم کیا تھا۔ سوال پوچھا گیا کہ وسیم اکرم وہ میچ کیوں نہیں کھیلے؟ زخمی تھے؟ جس پر راشد لطیف نے کہا اس پر کوئی تبصرہ نہیں۔ میچ فکسنگ میں پڑنے والے کسی بھی کھلاڑی کو دوبارہ واپس ٹیم میں نہیں لینا چاہیے، یہ میری رائے ہے، اس سے اختلاف کیجیے میرا موقف یہی ہے۔ 2003ءمیں الوک کپالی کے متنازع کیچ کی اپیل کے سوال پر راشد لطیف کہتے ہیں کہ میں نے ٹیم سے کہا تھا کہ واپس بلا لیتے ہیں، کپتان انضمام نے کہا نہیں آﺅٹ لے لیں، ورنہ میچ ہار جائیں گے۔ جس پر تابش ہاشمی نے کہا آپ پوچھ کیوں رہے تھے، خود ہی بلا لیتے۔ جس پر راشد لطیف نے کہا کہ غلطی انسان ہی سے ہوتی ہے۔
اپنی قیادت میں شارجہ کپ کی فتح کو وہ شعیب ملک، یونس خان اور محمد یوسف جیسے کھلاڑیوں کی محنت کے نام کرتے ہیں۔ قومی ٹیم میں جگہ بنانے کے حوالے سے ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ مجید بھائی نے کلب کرکٹ میں لیا، جب سعید انور کے ساتھ ایک میچ میں انھوں نے وکٹ کیپننگ کی، پھر وہ یونیورسٹی کی سطح پر بھی کھیلے اور ساتھ ہی پاکستان کی انڈر 19 کرکٹ ٹیم کا حصہ رہے۔ 1994ءمیں جب انھیں لگا کہ ٹیم جان بوجھ کر میچ ہاری ہے، تو انھوں نے اس پر بات کی، جس پر جسٹس قیوم کمیشن بنایا گیا اور پھر انھوں نے 1995ءمیں ریٹائرمنٹ لے لی اور تین برس بین الاقوامی کرکٹ سے دور رہے۔ 1998ءمین ریٹائرمنٹ ختم کرانے اور کرکٹ میں واپس لانے میں ماجد خان کا کردار ہے، جس کی وجہ سے ان کا ایک الگ مقام اور احترام ہے۔ میں اور معین خان حریف وکٹ کیپر ضرور تھے، لیکن وسیم اکرم اور وقار یونس کی طرح آپس میں لڑتے نہیں تھے۔ راشد لطیف نے یہ بھی کہا کہ آج کی ٹٰیم میں پہلے سے زیادہ گروہ بندی ہے۔ راشد لطیف سے پوچھا کہ اگر وہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنیں تو کیا کریں گے، انھوں نے کہا جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں کرکٹ کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے کام کریں گے، وہاں کرکٹ کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، یہ تجاویز ہر چیئرمین کو لکھی ہیں، لیکن کسی نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ماننا پڑے گا افغانستان کے راشد خان وسیم اکرم سے بڑے گیند باز ہیں۔ انھوں نے سرفراز، کامران اکمل اور رضوان کو خود اور معین سے بہتر وکیٹ کیپر قرار پایا۔ نیز انھوں نے معین خان کو خود سے بہتر وکٹ کیپر بتایا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights