تحریر :سعد احمد
پانچ فروری کو پرویز مشرف کی برسی گزری تو اردو کے ایک مقبول اخبار نے سرخی لگائی کہ برسی خاموشی سے گزر گئی، کسی نے بھی کچھ یاد کیا اور نہ ہی کوئی بیان جاری ہوا وغیرہ۔ ظاہر ہے اسے انھوںنے پرویز مشرف کے کردار کو منفی کرنے کی کوشش کی، لیکن ہم یاد رکھتے ہی کس کو ہیں؟ جو بھی سیاسی قائدین ہیں، ان کی موروثی سیاسی جماعتیں اور ان کے خاندان جو سیاست میں ہیں ان کی ہی مرہون منت ہوتے ہیں، جنرل ایوب اور جنرل ضیا اس کی مثالیں ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے اگرچہ اپنی سیاسی جماعت ’آل پاکستان مسلم لیگ‘ بنائی، لیکن اگر وہ بھی اپنی اولاد کو سیاسی جماعت میں رکھا ہوتا تو کچھ نہ کچھ ان کے لیے بھی خبروں میں جگہ مل جاتی۔
پرویز مشرف کی برسی پر ہمیشہ کی طرح ان پر تنقید کرنے کے حوالے سے ایک دل چسپ رائے سامنے آئی، جو میرے اس بلاگ کی وجہ بنی وہ یہ کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور جنرل پرویز مشرف کو مشترکہ طور پر پسند کرنے والوں سے ایک ’دل جلے‘ بلکہ معصوم دل جلے کہنا چاہیے، اس نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ کیسا طریقہ ہے کہ پرویز مشرف نے عبدالقدیر کے ساتھ کیا کیا اور آپ پرویز مشرف کے بھی مداح ہیں اور عبدالقدیر خان کو بھی پسند کرتے ہیں۔ یہ تو کھلا تٓضاد ہے؟
اگر کسی کو یہ تضاد لگتا ہے تو واقعی اسے سیاست اور سیاسی امور میں دل چسپی سے بھی توبہ کرلینی چاہیے کہ وہ اگر یہ سجھتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر سے زیادتی کی۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری جوہری قوت اول دن سے دنیا کے لیے مختلف الزامات کا نشانہ رہی ہے، سو پرویز مشرف کے دور میں بھی کچھ عالمی معاملات نے ایسی کروٹ لی کہ وہ سب کچھ کرنا پڑا جو پرویز مشرف نے کیا۔ اگر کسی اور کی حکومت ہوتی، تو اسے بھی یہی راستہ اختیار کرنا پڑتا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک دن ڈاکٹر قدیر پی ٹی وی پر آئے اور انھوں نے کہا کہ وہ جوہری معاملات کی منتقلی میں ذاتی طور پر ملوث رہے، ان سے غلطی ہوئی قوم انھیں معاف کردے۔ اس کے بعد پرویز مشرف نے انھیں معافی دے دی۔ اس صورت حال کی وضاحت کے لیے صرف سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین کا یہ بیان کافی ہے کہ ڈاکٹر قدیر نے دوسری مرتبہ پاکستان کو بچا لیا!
کیا اس کے بعد بھی مزید وضاحت باقی ہے کہ پرویز مشرف اور ڈاکٹر قدیر کے درمیان کوئی تنازع تھا؟ یہ تو حالات کا جبر تھا اور ایک فیصلہ تھا جو کرنا پڑا، شاید کوئی اور ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا اور قومی مفاد کی خاطر یہ سارے قدم اٹھاتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ پرویز مشرف ذاتی دشمنی میں ڈاکٹر قدیر سے کچھ کر رہے تھے۔ انھیں اگر نظر بند رکھا گیا تو ان کے تحفظ کی خاطر کیا گیا۔ دنیا بھر میں مختلف ممالک اپنے قومی مفاد کے لیے بہت سے اقدام کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں بڑی بڑی طاقتیں، اپنے اثر کے زعم میں کیا کچھ نہیں کرتیں، فرق یہ ہے کہ ان کے کارنامے دنیا کے سامنے کھلتے نہیں ہیں، یا اگر کھل بھی جائیں تو دبا دیے جاتے ہیں، یا پھر اسے معمولی قرار دے دیا جاتا ہے، اس کے لیے جواز نکال لیے جاتے ہیں اور بات آئی گئی ہوجاتی ہے۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کو یہ رعایت نہ باہر ملتی ہے اور نہ عاقبت نا اندیش اپنے دیتے ہیں۔ اور ایسے بے تکے سوالات کر جاتے ہیں کہ سمجھانا مشکل ہوجاتا ہے کہ پرویز مشرف اور ڈاکٹر قدیر کا بہ یک وقت مداح ہونا نہ غلط ہے اور نہ اس میں کوئی تضاد ہے۔ دونوں ہی پاکستان کے لیے مستعد تھے، دونوں ہی نے سب سے پہلے پاکستان کو مقدم رکھا اور اس کے لیے ہی کوششیں کیں۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات!
Categories
کیا پرویز مشرف اور ڈاکٹر قدیر کو بہ یک وقت پسند نہیں کیا جاسکتا؟
