Categories
Exclusive Karachi MQM PPP PTI ایم کیو ایم پاکستان تحریک انصاف پیپلز پارٹی سعد احمد سندھ سیاست قومی تاریخ قومی سیاست کراچی مہاجرقوم

کراچی میں لسانی فساد کی سازش کون کر رہا ہے؟

تحریر: سعد احمد
آفاق احمد کے لیے کراچی کی سیاسی قیادت ایک پیج پر آگئی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو گذشتہ دو دنوں سے کراچی کی سیاسی اور سماجی بیٹھکوں کا موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
منگل 11 فروری 2025 کو شہریوں کو کچلے جانے کے ردعمل میں کچھ علاقوں میں بھاری گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا، جس کے بعد ٹرانسپورٹرز کے اتحاد اور ان کے سربراہ لیاقت محسود کے احتجاج ، راستے بند کرنے اور آفاق احمد کی گرفتاری اور مقدمے کے مطالبے کے بعد منگل کی رات کو ۤمہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد کو گرفتار کرکے ان پر دہشت گردی کا مقدمہ قائم کیا گیا، اس دوران مہاجر قومی موومنٹ کے کئی کارکنوں کو بھی حراست میں لیا گیا اور اگلے روز ان کو بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا اور مطالبے کے مطابق ریمانڈ نہیں دیا گیا بلکہ جیل بھیج دیا گیا۔
اس پر جہاں سوشل میڈیا پر کراچی کے حقوق کے لیے سرگرم بے شمار شخصیات اور گروپوں نے آفاق احمد کی گرفتاری کی مذمت کی، وہیں اسی موقع پر اے آر وائے پر وسیم بادامی نے بھی اس واقعے پر معنی خیز انداز میں ذکر کیا اور کہا کہ کاش اتنی پھرتی شہریوں کو کچلنے والے ڈمپروں اور ٹینکروں کے خلاف بھی دکھائی جاتی! باقی پورے میڈیا میں مجموعی طور پر کسی کراچی کے اینکر یا صحافی کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ لب کشائی کرتے، ایسا تو ہمیشہ ہی ہوا ہے، کراچی کے صحافی کراچی سے وفا نہیں کرتے۔
اس کے بعد گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے نے بھی اس گرفتاری پر ردعمل ظاہر کیا اور وہی بات کی آفاق احمد کو پکڑںے میں بہت جلدی دکھائی گئی، اسی طرح سب سے دل چسپ متحدہ قومی موومنٹ (لندن) سے رابطہ کمیٹی کے کنوینئر مصطفیٰ عزیز آبادی کا ویڈیو پیغام تھا، جس میں انھوں نے آفاق احمد یا مہاجر قومی موومنٹ کا نام لیے بغیر گرفتاریوں کی مذمت کرڈالی۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی تھی، کہاں تو الطاف حسین کے نام لیوا سوشل میڈیا پر اِسے آفاق احمد کو ہیرو بنانے یا الطاف حسین کا متبادل بنانے کا ہتھ کنڈا قرار دے رہے تھے، لیکن لندن سے الطاف حسین کے گروپ نے خلاف توقع ایسی کوئی بات ہی نہیں کی۔ بلکہ بالواسطہ طور پر آفاق احمد کی تحریک کی حمایت کی۔ ایسا تاثر 35 برسوں میں پہلی مرتبہ پیدا ہوا ہے، تاہم جب صحافی انیس منصوری نے اس حوالے سے مصطفیٰ عزیز آبادی سے پوچھا کہ یہ آفاق احمد کی حمایت ہے تو انھوں نے ظاہر ہے ابھی اس کی تردید کی اور اسے عمومی قرار دیا۔ تاہم فی الحال اتنا کہہ دینا بھی کوئی چھوٹی بات نہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ بہادر آباد میں موجود ایم کیو ایم کی قیادت جہاں اپنے داخلی دھینگا مشتی سے نمٹ رہی ہے، وہیں انھوں نے بھی اس کی مذمت کی اور سب سے بڑھ کر مصطفیٰ کمال نے بھی ایک ویڈیو بنا کر آفاق احمد کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے بھی ڈمپر اور ٹینکر مافیا کی ہٹ دھرمی کی مذمت کی۔
تو یوں کل ملا کر کراچی کی نمائندہ قیادت کا بھاری گاڑیوں کی یلغار کے حوالے سے یک جائی دیکھی جا رہی ہے۔ وہیں دوسری طرف پشتون قوم پرستی کی سوچ رکھنے والے اسے لسانی فساد کی سازش کے شور تلے دبانے کی کوشش کر رہے ہیں، میرا سوال ہے کہ کچھ دن پہلے جب اے این پی کے ایمل ولی نے کراچی آکر دھمکی آمیز زبان بولی کہ “پختونوں کے ساتھ سلوک ٹھیک نہیں رکھیں گے تو کراچی نہیں چل سکے گا” کیا یہ لسانی فساد کی سازش نہ تھا، ایسا کیا ظلم ہو رہا تھا کراچی میں پشتونوں کے ساتھ جو ایمل ولی نے یہ نفرت آمیز زبان بولی۔ اس پر تو کسی پشتون یا غیر مقامی صحافی یا تجزیہ کار نے شور نہ کیا لسانی فساد کی سازش ہو رہی ہے۔ آج کراچی والوں نے ذرا سی ہمت دکھائی تو سب کے مروڑ اٹھ گئے کہ ہائے ہائے یہ کیا ہوگیا؟
کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
کیا یہ کراچی میں نفرت آمیز تقسیم کو بے نقاب نہیں کر رہا کہ کراچی کی کشادہ دلی کو کیسے حق سمجھ کر کراچی کی واٹ لگائی گئی ہے؟
کراچی والوں کو انسان سمجھنا چاہیے، انھیں بھی برابر کا شہری سمجھنا چاہیے۔ ساتھ ہی ٹرانسپورٹ مافیا کے سربراہ لیاقت محسود جس طرح ریاست کا شکریہ ادا کر رہا ہے، وہ کوئی اچھا اشارہ نہیں دے رہا، کراچی والے 1986 کی طرح سوچنے لگے ہیں کہ وہ نہتے اور یرغمال ہیں، ان پر ریاستی آشیر واد سے غنڈے حملہ آور ہیں۔ اس لیے خدارا لسانی فساد کا شور نہ مچائیے بلکہ کراچی والوں کے غم کا مدوا کیجیے، مہاجروں کو دھکیلنے اور جبر تلے کچلنے کا سلسلہ تمام کیجیے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights