Categories
Education Exclusive Society تہذیب وثقافت دل چسپ رضوان طاہر مبین سمے وار بلاگ

”بدکلام“

(تحریر: رضوان طاہر مبین)
”بدکلام“
ہمارے خیال میں تہذیب کے دائرے میں اُنھیں اِس سے بہتر اور مناسب نام دیا جانا بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ وہ ”بد“ والے ’سابقے‘ کے بہت سارے زُمروں میں انگوٹھی میں کسی نگینے کی طرح فٹ بیٹھتے ہیں، جیسا کہ بدمعاش، بدمزاج، بدتہذیب، بدتمیز، بد گو، بدزبان، بد گمان، بدخیال اور ’بد نسل‘ لیکن نہیں یہ ہم صحیح اور غلط کی بحث میں پڑے بغیر بالکل بھی نہیں کہیں گے، اور پھر اس سے یہ خدشہ بھی تو ہے ناں کہ اِس سے سماج کے ’بد نسلوں‘ کی بہت زیادہ دل آزاری ہو جائے گی جو کسی طور بھی ہمارا مقصود نہیں ہے!
تو صاحب،اپنی جوانی میں وہ اپنے جس بھائی کے ساتھ محلے بھر میں غُل، بلکہ غنڈہ گردی مچائے رکھتے تھے، اِسی سے اُن کے آخری دم تک اِن کی اَن بَن رہی اور پھر چَشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ اپنے جس بھائی کے ساتھ وہ آخر تک باہم شِِیر وشَکر رہے تھے، اُسی بھائی کے گزر جانے کے بعد اس کی اولاد نے اپنے اِس چچا کی بیچ سڑک پر وہ ”عزت افزائی“ کی کہ انھوں نے بھی کبھی کسی کی کیا کی ہوگی! ’دروغ گو بردنِ راوی‘ بتایا تو یہ جاتا ہے کہ سگے بھتیجوں کی جانب سے اُن کی اِس ”تواضع“ کے دوران بھرے مجمعے میں اُن کا لباس بھی تار تار ہوگیا، لیکن اِس کا فائدہ ہی کیا؟ ان کی عادات واطوار کے واسطے آخر کچھ بھی تو فرق نہیں پڑا۔ اب آپ اِسے کوئی منفی نام بالکل نہ دیجیے گا کہ اِسے مثبت انداز میں ’مستقل مزاجی‘ کہتے ہیں باقی، جو آپ سمجھے ہیں، حقیقت میں تو یہ ماجرا بالکل وہی ہے!
ان کے نام ساتھ بطور لاحقہ ان کی ایک عدد عُرفیت بھی چپکی ہوئی ہے، جو بقول شخصے ان کے چٹان جیسے عزم اور ان کی جسمانی مضبوطی کی دلالت کرتی ہے، بلکہ اب تو ’ہے‘ نہیں بلکہ ’تھی، لکھنا چاہیے، کیوں کہ گذشتہ دنوں مُحلے میں ہمارے ایک پرانے شناسا آئے، تو انھوں نے موصوف کی موجودہ ’کیفیت‘ کو دیکھ کر تبصرہ کیا کہ ”کسی وقت میں کیا طُرم خانی اور پھَنّے خانی ہوتی تھی اور آج بڑھاپے میں ان کی کیا حالت ہوگئی ہے!“ لیکن شاید صرف یہ ظاہری ’پیرانہ سالی‘ ہے، اندر سے اب بھی وہ خود کو ’بوڑھا‘ یا ’پختہ عمر‘ کا بھی نہیں سمجھتے۔ اب کیا کیجیے کہ حقیقت میں چاہے، وہ اب بھی ’نابالغ‘ حرکتیں کرتے پھریں ، جانتے تو اب وہ بھی ہیں کہ اب اکڑفوں والی عُمر کسی طرح بھی باقی نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب چھوٹے چھوٹے معمولی سے لوگوں سے بھی ’ذلیل‘ ہو کر بھی وہ فقط دل ہی میں ’کچھ کچھ‘ سوچ کر رہ جاتے ہوں گے۔ البتہ ایک مرتبہ مسجد میں ہی وہ اتنے زیادہ اتاﺅلے ہوئے کہ اپنے ایک مخاطب پر ”کچھ کرنے“ کے لیے اُٹھے بھی، لیکن کسی کے روک دینے سے پھر بہ آسانی ’مان‘ بھی گئے!
اب ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ کوئی بہت ہی بُرے آدمی ہیں بھئی، ملا جلا کر کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طور ہم نے ان کو اچھا خاصا مناسب شخص ہی پایا تھا، مگر زبان اُن کی ہمیشہ سے اُن کی سمع خراش آواز کی طرح نہایت ہی غیرمناسب اور ’ناقابل قبول حد تک‘ پراگندہ رہی ہے۔ وہ تو یہ بھی خاطر میں نہیں لاتے کہ وہ مسجد کے صحن میں پدھارے ہیں اور اگر انھیں احساس دلایا جائے کہ حضور! یہ مسجد ہے، اپنی آواز تھوڑی نیچے کرلیجیے، تو فرماتے ہیں کہ ”نہیں، تو تُو کیا کرلے گا؟“ ارے بھئی، جو کرے گا، اب تو وہ خدا ہی کرے گا، کسی اور کو کیا کرنا ہے، باقی اگر لڑنا ہی مقصود ہے تو مسجد سے باہر آجائیے اور پھر کرلیجیے آواز کو بھی بلند اور الفاظ کو بھی بے لگام۔ تب کم سے کم سامنے والا کسی مصلحت کا اَسیر تو نہیں رہے گا کہ اُس کی وجہ سے مسجد کی حرمت پائمال ہو رہی ہے!
’سارے عالم پہ ہوں میں چھایا ہوا مستند ہے میرا فرمایا ہوا!‘
اگر کوئی کام میں چاہوں گا، تو ہوگا ورنہ نہیں ہوگا، یہ مزاج ان کا عمر کے اِس آخری حصے میں بھی بہ درجہ¿ اتم موجود ہے۔ اس پر احاطہ¿ مسجد ہی میں اپنا گلا پھاڑ کر ”فرماتے“ ہیں، ”میں سب اللہ کے لیے کرتا ہوں، مجھے کوئی مال نہیں چاہیے۔ پھر مسجد کے نمازیوں ہی کی برائیاں اور بدگمانیاں کرتے ہوئے مسجد کے اب تک کے تمام مُتولّیوں تک پر کھلم کھلا تبرّا اور سنگین الزام تراشیوں پر اتر آتے ہیں، کہ یہاں سارے کے سارے لوگ مال کے لیے کام کرتے تھے۔ اس بدکلام شخص کی یہ بے ہودگی سن کر ہمارے سامنے بچپن سے اب تک کے اِس مسجد کی تعمیر اور انتظام کے لیے اخلاص سے کام کرنے والی مختلف مُعتبر ومحترم شخصیات کے چہرے گھوم گئے۔ ہم نے سوچا کہ کیسے زبان کے بگاڑ سے انسان اپنے لیے خرابیاں جمع کرنے لگتا ہے! اگر آپ اللہ کے لیے کر رہے ہیں، تو کیوں ناحق تہمت اور الزام لگا کر اُسے اپنے ہی ہاتھوں ضائع کرتے ہیں۔ اگر آپ کی مسجد سے وابستگی واقعی اپنے رب کے لیے ہے، تو اللہ کے لیے کام کرنے والوں میں تو بہت عاجزی اور انکساری ہوتی ہے، ان کی تو نہ آوازیں اتنی اونچی ہوتی ہیں اور نہ ہی الفاظ اتنے زیادہ پست!
خیر، جب اُن سے یہ کہا گیا، چلیے پچھلے جو کر گئے، اپنے لیے کر گئے اور اس کا صلہ پا رہے ہیں اور پالیں گے۔ آج کی بات کرلیجیے۔ اس پر بھی میں نہ مانوں کی رٹ، ضد اور ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ مسجد کے وضو خانے میں ’سنگِ مرمر‘ پر گیلے پیروں کی وجہ سے کوئی نمازی اگر پھسل کر گر رہا ہے، تو یہ ماننے میں انھیں اس قدر تامل ہے کہ کہتے ہیں کہ کون گرا ہے، بلا کر لاﺅ اُسے میرے سامنے! اس موقعے پر اسی حلقے میں موجود ایک صاحب چُپکے رہتے ہیں اور گفتگو کے بعد ان کے سامنے کورنش بجا لا کر اپنے ’پیر پھسل جانے‘ کا اعتراف کرتے ہیں۔ تعجب ہے کہ بہت سے لوگ آج بھی ان کی بلند آواز زبان درازیوں کے آگے چُوں کرنے کی ہمت نہیں پاتے۔ ارے وہ شخص دس آدمیوں کے بیچ میں بکواس کر کے برابر تمھاری عزت خاک میں ملا رہا ہے، آخر کیوں خود کو اتنا بے وقار کر رہے ہو؟
بہرحال ’موصوف‘ بہ ضد رہے کہ خادم پونچھا لگا دے گا تو پھر کسی کا پیر نہیں پھسلے گا۔ کہا گیا کہ خادم کتنا پوچھے گا اور کب تلک پوچھے گا؟ جب کوئی بھی وضو کے بعد اپنا گیلا پیر ٹائلوں پرکھے گا تو لامحالہ اس کے پھسلنے ہی کا احتمال ہے، لیکن انھوں نے نمازیوں کا بچھوایا گیا ربڑ کا پائیدان اٹھوا کر ہی دَم لیا۔ ہونے کو تو یہ بھی ہو سکتا تھا کہ نمازی اُن کے آڑے ہوتے کہ بتائیے کیسے اٹھا سکتے ہیں، ذرا اٹھا کر دکھا دیجیے۔ اس سے دھینگا مشتی ہی ہوتی اور اس شخص کے مسجد کا ماحول پلید کرنے میں دوسروں کا حصہ بھی شامل ہو جاتا، اس لیے مصلحتاً زبانی طور پر ہی قائل کرنے کی کوشش رہی، جو اس کے غرور، تکبر اور رعونت کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوئی۔
سوال یہ تھا کہ مسجد ہٰذا کی اب کوئی ’انتظامی کمیٹی‘ ہی موجود نہیں ہے، صاحب صدر تشریف نہیں لاتے، آپ خود بھی اب یہاں رہائش نہیں رکھتے، مسجد کے انتظامی امور کے واسطے کوئی مقامی لوگ ہونے چاہئیں، جو مسجد کے معاملات کو دیکھیں، تو وہ کہنے کو تو صدر کو برا بھلا کہہ رہے ہیں، لیکن یہاں صدر سے بالکل متفق ہیں کہ مسجد کمیٹی کی کیا ضرورت ہے؟ یہاں کے نمازیوں میں تو اب کوئی اس ’لائق‘ ہے ہی نہیں! پھر خود بولے کہ صدر صاحب کہتے ہیں کہ یہ ٹرسٹ میرا ہے، میرے بعد میری جگہ میری اولاد اِسے دیکھے گی، وہ مجھے کہتے ہیں کہ میری اولاد، تو میں نے کہا مجھے اپنی اولاد کو نہیں لانا اس ’کنجر خانے‘ میں!!!
”آپ مسجد کو کنجر خانہ کہہ رہے ہیں؟؟؟“
انھیں بروقت ٹوکا گیا، لیکن اس موقعے پر موجود کوئی دس سے زائد افراد چھوٹی بڑی عمروں کے موجود تھے، کسی اور نے اِس ’بدکلام‘ کی زبان کو لگام ڈالنے کی ہمت نہیں کی کہ میاں، تم یہ مسجد میں بیٹھ کر مسجد جیسی متبارک جگہ کے لیے کس قسم کے بے ہودہ، گستاخانہ اور گھٹیا قسم کے الفاظ استعمال کر رہے ہو؟ وجہ وہی تھی کہ لوگ اس کی اونچی آواز اور بدکلامیوں سے ابھی تک ڈرتے ہیں۔ جس کی طبیعت اور مزاج پر مسجد سے قربت اتنے عرصے میں کوئی اثر نہ ڈال سکی، جو مسجد میں بیٹھ کر دھڑلے سے کسی چھٹے ہوئے لُچے اور لَفنگے کی طرح سے بے دھڑک بازاری القاب اور عامیانہ الفاظ استعمال کرتا ہے۔۔۔ اُسے ابھی تک اتنی تمیز اور تہذیب بھی نصیب نہیں ہو سکی ہے کہ وہ بدکلام اور ’پست خیال‘ شخص اپنے ’مخالف‘ کے جسمانی نقائص تک پر بات بنانے سے باز رہ پاتا! یہ حدودِ مسجد میں اپنی آواز اونچی ہونے پر کہتا ہے کہ مجھے فلاں کو دیکھ کر غصہ آجاتا ہے، تو ایسے ’غیر متوازن‘ اور ’فاترا لعقل‘ آدمی کو مسجد جیسے حساس معاملات میں مسلط کرنا کوئی دانش مندانہ عمل تو ہرگز نہیں ہے!
اُسے تو یہ لگتا ہے کہ ’لوگوں‘ کو اِس سے حسد ہو رہا ہے، جس پر بدکلامیوں کے درمیان یہ شخص بددعائیں بھی دیتا ہے کہ اس مسجد میں حسد کرنے والوں کا حشر دیکھا ہے اور باقیوں کا بھی دیکھ لوں گا۔ یہ بھی اس کی ذہنی خنّاس کا نتیجہ ہے، ورنہ کوئی بھی بھلا آدمی مسجد کے معاملات میں اِس سے کیوں کر حسد کرنے لگا؟ لیکن اُسے اپنی بات کے آگے کبھی کوئی دلیل کوئی عُذر قبول ہی کہاں ہوا ہے! اِس مسجد کی تاریخ میں جتنے لوگوں نے اِس سے کبھی کوئی اختلافی بات کرنے کی جرا¿ت کی ہے، اُس نے اِس کی زبان درازیوں اور بڑ بولیوں کے آگے اپنے دامنِ عزت بچانے ہی میں عافیت جانی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کب تک اور آخر کہاں تک؟ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے، کسی کو تو کبھی نہ کبھی اس ’بیماری‘ کا علاج کرنا ہی ہے!
اب سوال تو یہ بھی ہے کہ اب تک اس تمام تر صورت حال کا ذمہ دار ہے کون؟
’صدر ٹرسٹ‘ اور اتنا ہی تمام لوگ بھی! جنھوں نے آج تک اس ’بدکلام‘ آدمی کی بے لگامی اتنی بزدلی سے برداشت کی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حق بات کرنے سے گھبراتے رہے۔ اس بدنصیب ٹرسٹ کو صدر بھی ایسا نصیب ہوا ہے کہ اُسے ٹرسٹ کی مارکیٹ کی دکانوں کی ’پگڑی‘ کے لیے زیادہ دل چسپی ہے، مسجد کے کسی معاملے کے لیے اس کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ وہ کہتا ہے کہ مسجد کا کوئی مسئلہ ہے، آپ میری دکان آجائیں، لوگ کئی بار دکان پر بھی گئے ہیں، لیکن اب اس لاحاصل مشق کے لیے ہمت جواب دے گئی تو صاف کہہ دیا گیا کہ مسجد کا معاملہ ہے، آپ ہی کو مسجد آنا ہوگا۔ ہمارے تمھارے کاروبار کی بات تھوڑا ہی ہے کہ آپ کی دکان پر آکر کرتے رہیں گے! مگر وہ اکثر مُصر رہتے کہ میں تو نہیں آسکتا، اگر آپ نہیں آسکتے، تو اِس (بدکلام) شخص سے بات کرلیں، آپ ’اس‘ سے بات کرتے ہوئے گھبراتے ہیں!!
ارے گھبرائے گی جوتی مسجد کا تقدس آڑے آتا ہے۔ اب کیا کیجیے کہ اس مسجد کی تقدیر میں انتظامیہ کے نام پر یہی دو کم ظرفوں کی جوڑی ہی رہ گئی ہے، جو ’نورا کشتی‘ کے تحت ایک دوسرے کے ”خلاف“ دکھائی تو دیں، لیکن مفادات کی خاطر ایک دوسرے کا ساتھ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں۔ ’صدر‘ نے اپنے اس ’بدکلام‘ ساتھی سے سب سے زیادہ جو سیکھا ہے، وہ اس کا یہ اندازِ تکلم کہ:
”تم ہوتے کون ہو۔۔۔؟“
”تم کیا کر لوگے۔۔۔؟“
”جاﺅ، جو کرسکتے ہو کرلو۔۔۔!“
یہ تو کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخ میں اکثر طاقت کے زُعم میں اکڑنے والے اصول کی بات کرنے والوں پر ’غالب‘ ہو جایا کرتے ہیں۔
رہے نام اللہ کا
جاہ و جلال، دام و دِرم اور کتنی دیر
ریگِ رواں پہ نقش قدم اور کتنی دیر؟
اب اور کتنی دیر یہ دہشت، یہ ڈر، یہ خوف
گَرد و غبار عہدِ ستم اور کتنی دیر؟
شام آ رہی ہے، ڈوبتا سورج بتائے گا
تم اور کتنی دیر ہو، ہم اور کتنی دیر!
(افتخار عارف)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights