سمے وار (خصوصی رپورٹ)
2007 میں دسمبر کی 27 تاریخ تھی، ایک تقریب میں نام ور فلسفی ڈاکٹر منظور احمد اپنا مقالہ پیش کر رہے تھے، اسی دوران ملتان سے آنے والے ایک مہمان ڈاکٹر انوار احمد کو ان کی صاحب زادی کا پیغام موصول ہوتا ہے جس میں بے نظیر کے قتل کی خبر دی گئی ہوتی ہے۔
جس پر یہ تقریب اچانک ختم کی گئی وہ لکھتے ہیں کہ اب کراچی والوں کو تو اندازہ تھا کہ کیا صورت حال درپیش ہوگی۔ جمیل الدین عالی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور پھر افتخار عارف روانہ ہوگئے۔ ہم شہر قائد میں جامعہ کراچی کے ہاسٹل میں قیام پذیر تھے۔ شعبہ اردو کی سربراہ ڈاکٹر تنظیم الفردوس کی گاڑی میں اس تقریب سے روانہ ہوئے۔ وہ خود گاڑی چلا رہی تھیں۔۔۔
باہر نکلے، تو ہمیں بتایا گیا کہ یہ نیم برہنہ ننگے پائوں لیاری کے لوگ ہیں جن کے ہاتھ میں پیٹرول کے ڈبے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کی سڑکوں پر کئی گاڑیاں دھڑا دھڑ جلنا شروع ہو گئیں!
پھر ہماری گاڑی کو بھی ایک مشتعل ہجوم نے گھیرا جن کے ہاتھوں میں درختوں کی ٹہنیاں نہیں، بلکہ پورے پورے تنے تھے، میں نے چیخ کے کہا ہم بھی بے نظیر کی شہادت کا ماتم کر رہے ہیں ہماری گاڑی کے شیشے نہ توڑیں، نہ آگ لگائیں کہ یہ گاڑی ایک خاتون ہی چلا رہی ہیں۔
ایک وحشت زدہ نوجوان نے زور سے کہا “یہ گاڑی ایک خاتون چلا رہی ہے، اسے جانے دو!”
ہم وہاں سے نکلے تو کراچی کی سڑکوں پر جگہ جگہ گاڑیاں جل رہی تھیں۔ ڈاکٹر تنظیم الفردوس جدھر بھی گاڑی موڑتیں آگ اورپتھر ہمارا راستہ روک لیتے۔
جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سابق سربراہ اور ماہر لسانیات ڈاکٹر معین الدین عقیل کی گاڑی نسبتاً ہماری گاڑی سے بڑی تھی، مگر ہم نے دیکھا کہ ان کاماتھا زخمی ہے انھوں نے ایک جاپانی طالب علم نشی مورا ہمارے حوالے کیا کہ اسے اپنے ساتھ رکھیں ۔وہ رات ہمیں کبھی نہیں بھول سکتی۔
ڈاکٹر انوار احمد کی بیان کردہ یہ کہانی ان کے لیے ایک حوالہ ہے، جو کراچی میں تشدد اور ہنگامہ آرائی کے حوالے سے ایک مخصوص ذہنیت رکھتے ہیں، اس میں دیکھ لیجیے کہ 27 دسمبر 2007 کو بے نظیر کے قتل کے بعد کس طرح کراچی کی سڑکوں پر موت کا رقص جاری تھا۔
Categories
27دسمبر 2007: ڈاکٹر معین عقیل کے ماتھے سے خون بہہ رہا تھا
