(تحریر: سعد احمد)
زیادہ دن نہیں گزرے، جب کراچی میں واٹر ٹینکر، ڈمپر اور ٹرالر سے شہریوں کے کچلے جانے پر ایک احتجاجی تحریک شروع ہوئی تھی۔ ٹینکروں سے کچلے جانا تو نہیں رکا، لیکن ریاست نے یہ تحریک ضرور کچل کر رکھ دی ہے۔
بہت برا حال ہے کراچی کا۔ اس احتجاج کے بعد وہ ہیوی ٹریفک جو 11 بجے کے بعد نکلنا شروع ہوتا تھا وہ 10 بجے تک چھوٹ پا گیا اور واٹر ٹینکر کو تو 24 گھنٹے شہریوں کو کچلنے میرا مطلب ہے سڑکوں پر دندنانے کی کھلی اجازت ہے، اس سب کے بیچ جو ایک اور کام ریاست نے اس شہر والوں کے ساتھ کیا ہے وہ سندھ اور پنجاب جانے والی بسوں کی کراچی کی عام سڑکوں پر آمد ورفت ہے!
عدالت نے فیصلہ دے کر کینٹ، صدر اور سہراب گوٹھ وغیرہ سے کراچی سے باہر جانے والی بسوں کے غیر قانونی اڈے ختم کیے تو ریاست نے انھیں کراچی کی عام سڑکوں پر شہریوں کو کچلنے اور تجاوزات کے ساتھ سڑکوں کو جام کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے، کہیں کسی چینل یا اخبار میں کوئی ایک سطر کی خبر بھی موجود نہیں ہے کہ آخر کون سے قانون کے تحت کراچی میں ملتان، سکھر، رحیم یارخان، لاہور اور پنڈی تک کی قوی الجثہ بسیں چلائی جا رہی ہیں اور وہ بھی رش کے اوقات میں، جب لوگوں کے دفاتر جانے یا وہاں سے واپسی کا وقت ہوتا ہے۔
یہ بھاری بھاری بسیں کھلم کھلا کراچی کی سڑکوں پر چل رہی ہیں اور ان کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ، یہ کراچی کی غیر مقامی بستیوں سے لوگوں کو سوار کراکے ان کے گائوں پہنچاتی اور یہاں لاتی ہیں، چلتی سڑک پر بس روک کر مسافر اتارے اور چڑھائے جا رہیں، کوئی چارپائی چڑھا رہا ہے، کوئی اسکوٹر بس کی چھت پر گھسیٹ رہا ہے تو کوئی اور بورا اٹھا کر لے جارہا ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ کراچی والوں کو چند کلو میٹر دور اپنے گھر سے کالج، یونیورسٹی یا دفتر کے لیے کوئی براہ راست بس یا ڈھنگ کی سواری نہیں ملتی، لیکن دوسرے شہروں سے آنے والے سندھی، پنجابی، بلوچ اور پٹھان وغیرہ بڑے آرام سے ہمارے گھروں کے آگے سے سیدھا اپنے گائوں بڑے سکون سے آتے جاتے ہیں۔ ہمیں چنگ چی سے کپڑے پھٹوانے کے لیے چھوڑ دیا۔ تنگ بسوں میں ٹھونس کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اور وہ بھی بڑی قسمت ہے کہ آپ کو اپنے اسٹاپ سے دفتر کے لیے کوئی بس مل جائے، ورنہ سندھ اور پنجاب کی تو براہ راست بسیں ہیں، لیکن کراچی میں رہ کر کراچی والے اس کا حق نہیں رکھتے کہ ان کے گھر سے کوئی بس سیدھی تمیز اور تہذیب کے دائرے میں انھیں دفتر چھوڑ آئے یا واپس لے آئے۔
کراچی واقعی بد نصیب اور کراچی والے بدنصیب ترین ہیں!
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)