تحریر: رضوان طاہر مبین
افسوس کہ ہماری قومی تاریخ تو بدترین تعصب کی نذر ہو چکی ہے، کیوں کہ ہم نے ’ایک قوم‘ کہلانے کی جدوجہد صرف بٹوارے کے ہنگام تک ہی کی، یا یوں کہہ لیجیے کہ تب تک ہمارا ’مفاد‘ اسی میں تھا، سو پاکستان بن جانے کے بعد بہت جلد ہی ’تو کون اور میں کون‘ کا معاملہ شروع ہوگیا، جو وقت کے ساتھ ساتھ عروج پر پہنچ گیا۔
آج 27 رمضان المبارک ہے، ہجری تقویم کے لحاظ سے اس مملکت پاکستان کا جنم آج ہی کی تاریخ میں ہوا تھا لیکن آدھے ملک اور خالی خزانے پر کون سا جشن اور کاہے کی خوشی
اس سب صورت حال میں ہمارا داخلی انتشار اور پچھتر برس بعد بھی ایک دوسرے کے لیے گنجائش نہ ہونا شاید خالی خزانے اور ملک ٹوٹنے سے زیادہ بڑا المیہ ہے
خیر گذشتہ دنوں تحریک پاکستان کا ایک واقعہ دوبارہ نظر کے سامنے سے دوبارہ گزرا اور نگاہ کو دھندلا گیا کیا جذبہ تھا، کیا ولولہ اور کیا لگن تھی، بالخصوص ایسے علاقوں کی جہاں کے لوگ کبھی پاکستان کا حصہ ہی نہ بن سکے۔ اگرچہ آج ان کے تیس میں سے سترہ نشستوں (یعنی چھپن فی صد) کا کہیں تذکرہ نہیں کیا جاتا اور ان کی قومیتی شناخت پر آج بھی مجموعی طور پر سوالیہ نشان لگایا ہوا ہے۔
یہ واقعہ مدراس (چنائے) کے ایک یتیم خانے کا ہے، جہاں کے بچوں نے قائداعظم کو تحریک پاکستان کے لیے 20 پیسے کا چندہ دیا محمد علی جناح تو وہاں دل جوئی کو آئے تھے، یقیناً ان کا حیران ہونا برحق تھا کہ بے چارے بے ماں باپ کے اور کسی سرپرست سے محروم ان بچوں کے پاس یہ بیس پیسے بھی کہاں سے آگئے، تو ذرا دل تھام کر ان کم سن اور بے آسرا بچوں کی لگن اور جذبے کا اندازہ لگائیے، وہ کہتے ہیںکہ:
”قائداعظم، ہم نے سنا ہے کہ آپ مسلمانوں کے لیے کوئی ملک بنا رہے ہیں، اس لیے ہم نے ’یتیم خانے‘ میں ملنے والی روکھی سوکھی دو وقت کی روٹیاں بچا کر رکھ لیں اور صرف سالن کھا کر گزارا کیا اور پھر یہ روٹیاں بیچ کر یہ 20 پیسے جمع کیے ہیں۔ اے قائد، آپ ہمارے ان پیسوں کے ڈاک ٹکٹ خرید کر اپنی تحریک میں استعمال کر لیجیے گا۔“
آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا یہ ریاست پاکستان کبھی مدراس کے یتیم بچوں کے ان 20 پیسوں کا قرض چُکا سکتی ہے ان ننھی جانوں کا صرف اس پاکستان کے لیے بھوکا رہنے کے کشٹ کا کوئی ازالہ کرسکتی ہے؟
Categories