تحریر: خالد خان
پاکستان کی معیشت ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر نازک دور سے گزر رہی ہے۔ ہمارے ملک کی اس معاشی بدحالی کا ذمہ دار صرف اور صرف ذوالفقار بھٹو ہیں۔
1953 میں نینشل موٹر کارپوریشن نے امریکن جنرل موٹرز کے اشتراک سے پاکستان کی پہلی واکس ہال گاڑی تیار کی تھی، جب کہ بعد میں پاکستاں کے مشہور زمانہ بیڈ فورڈ ٹرک اسی پلانٹ پر تیار کیے گئے تھے۔ اسی سال مشہور زمانہ ایکسائڈ بیٹریز نے پاکستان میں پہلا بیٹری پلانٹ لگایا۔
اس کے بعد اگلے برس یعنی 1954 میں علی موٹرز نے فورڈ موٹرز امریکا کے ساتھ مل کر پہلی گاڑی، ٹرک اور اس کے بعد پک اَپ ٹرک تیار کرنے کی غرض سے پلانٹ لگایا۔
1956 میں ہارون انڈسٹریز نے ڈوجے امریکا کے برینڈ کے نام سے ایک عدد پک اَپ ٹرک تیار کیا۔
اس کے بعد ہم پہنچتے ہیں 1961 میں، جب آل ون انجینئرنگ نے پاکستان میں گاڑیوں کے حصے تیار کرنے کا جدید کارخانہ شروع کیا۔ اس کے اگلے برس وزیر انڈسٹریز نے اٹالین لمبریٹا اسکوٹر کمپنی کے اشتراک سے پاکستان کا پہلا اسکوٹر لمبریٹا TV200 تیار کیا تھا، کہاں تک سنیں گے کہاں تک سنائیں۔۔۔۔
1962 ہی میں کندھنوالہ انڈسٹریز نے امریکن جیپ کمپنی نے پہلی بار مختلف ماڈل سیریز سی جےفائیو، سکس اور سیون تیار کی۔ 1963 میں جنرل ٹائرز نے جرمنی کے تعاون سے شہر قائد میں ٹائروں کا پہلا پلانٹ کانٹنٹل ٹائرز قائم کیا۔ اس برس ہائے سن گروپ نے امریکی ماک ٹرک کی پیداوار شروع کی۔ 1964 میں رانا ٹریکٹرز (موجودہ ملت) نے میسی فرگوسن ٹریکٹرز کی ملکی سطح پر پیداوار کا آغاز کر دیا۔
1964 میں نینشل موٹرز کو خٹک خاندان نے خریدا تو وہ گندھارا موٹر انڈسٹریز بنی 1964 میں ہی راجا موٹرز نے اٹالین مشہور زمانہ ویسپا اسکوٹر کی پاکستان میں پیدوار شروع کی۔ 1964 اٹلس آٹوز نے پہلا ہنڈا موٹر سائیکل کا پلانٹ لگایا۔ 1965 میں جعفر موٹرز نے مختلف آپریشن جیسے ٹریلر بیڈ ، ایمبولینس، فائر بریگیڈ کے لیے گاڑیاں تیار کرنے کی شروعات کی۔ 1965 میں مانو موٹرز نے ٹیوٹا گاڑیوں کی مقامی سطح پر پیداوار کی بنیاد رکھی
اس کے بعد ستاروں میں روشنی نہ رہی، یعنی اِدھر ہم اُدھر تم کا نعرہ لگانے والے ذوالفقار علی بھٹو جلوہ افروز ہوئے اور اس کے بعد سے شروع ہونے والا زوال آج تک ختم ہونے میں نہیں ۤآیا۔ یعنی تمام صنعوتوں کی طرح گاڑی سازی سے منسلک صنعت کو بھی جبراً ہتھیا لیا گیااور پاکستان آٹو موبائل کارپوریشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔
علی موٹرز کو عوامی موٹرز، وزیر علی انجینئرنگ کو سندھ انجینرنگ، ہارون انڈسٹریز کو ریپبلک موٹرز، گندھارا موٹرز کو نیشنل موٹرز، کندھنوالہ موٹرز کو نیا دور موٹرز، ہائے سن کو ماک ٹرک، جعفر موٹرز کو ٹریلر ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے نام سے بدل دیا گیا۔ جب کہ رانا ٹریکٹرز کو ملت ٹریکٹرز کا نام دے کر پاکستان ٹریکٹر کارپوریشن کا ادارہ قائم کیا گیا۔
اس کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی وہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے، اگر یہ تمام ادارے سرکار کے قبضے میں نہ جاتے توآج پاکستان کے اپنے برینڈ لا چکے ہوتے۔ آج ہمارے ملک کی بنی گاڑیاں، موٹر سائیکل ، ٹریکٹر اور ٹرک دوسرے ممالک کی سڑکوں پر دوڑ رہی ہوتیں۔ آج ان قومیائی گئی صنعتوں میں سے صرف 3 ٹوٹی پھوٹی حالت میں کسی نہ کسی طرح زندہ ہیں۔ باقی سب وقت کی دھول میں کھو چکی ہیں۔
1960 کی دہائی تک پاکستان میں صنعت فروغ پا رہی تھی۔ اصفہانی، آدم جی، سہگل، جعفر برادرز، رنگون والا، افریقا والا برادرز جیسے ناموں نے پاکستان کو صنعت کاری کے نئے دور کی جانب گام زن کیا تھا۔ عالمی طور پر ہمیں صنعتوں کی جنت کہا جاتا تھا، قریب تھا کہ ہماری صنعت ایشیا کے افق پر نمایاں ہوجاتی، لیکن یہاں کاروباری خاندانوں کے شکر گزار ہونے کے بہ جائے ان کو یہ صلہ دیا گیا۔
پھر ذوالفقار بھٹو کے نام نہاد سوشل ازم کے مہلک نعرے’’چھینو مل لٹیروں سے!”
اور بھٹو نے پھر یہ سبا مالکان سے نہیں بلکہ اس ملک ہی سے چھین لیا، آدھا پاکستان اقتدار کی بھوک میں کھالیا، باقی کو “نیا پاکستان” کہہ کر اس کا بھی بیڑہ غرق کرگئے۔
انھوں نے 31 صنعتی یونٹ، 13 بنک ، 14 انشورنش کمپنیاں ، 10 شپنگ کمپنیاں اور 2 پٹرولیم کمپنیوں سمیت بہت کچھ قومیا لیا۔ اسٹیل ملز کارپوریشن آف پاکستان، کراچی الیکٹرک، گندھارا انڈسٹریز، نیشنل ریفائنریز، پاکستان فرٹیلائزرز، انڈس کیمیکلز اینڈ اندسٹریز، اتفاق فاؤنڈری، پاکستان سٹیلز، حبیب بنک، یونائیٹڈ بنک، مسلم کمرشل بنک، پاکستان بنک، بینک آف بہاول پور، لاہور کمرشل بنک، کامرس بنک، آدم جی انشورنس، حبیب انشورنس، نیو جوبلی، پاکستان شپنگ، گلف سٹیل شپنگ، سنٹرل آئرن ایند اسٹیل سمیت کتنے ہی اداروں کو ایک حکم کے ذریعے ان کے مالکان سے غصب کر لیا گیا۔
ابتداً کہا گیا حکومت ان صنعتوں کا صرف انتظام سنبھال رہی ہے، جب کہ ملکیت اصل مالکان ہی کی رہے گی۔ پھر کہا گیا ان ان صنعتوں کی مالک بھی حکومت ہو گی۔ پہلے کہا گیا کسی کو کوئی زر تلافی نہیں ملے گا۔ پھر کہا گیا دیا جائے گا۔ کبھی کہا گیا مارکیٹ کے بھائو پر دیا جائے گا پھر کہا گیا نرخ کا تعین حکومت کرے گی۔ ایک تماشا لگا دیا گیا۔ مزدور اور مالکان کے درمیان معاملات خراب تھے یا دولت کا ارتکاز ہو رہا تھا تو اس معاملے کو اچھے طریقے سے بیٹھ کر حل کیا جا سکتا تھا، مزدوروں کی فلاح کے لیے کچھ قوانین بنائے جا سکتے تھے لیکن ذوالفقار بھٹو تو دلیپ کمار بننا چاہتے تھے۔ وہ مزدور اور کارکن کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ سرمایہ داروں کے خلاف انھوں نے انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یہ تاثر قائم کرتے کرتے انھوں نے پاکستانی معیشت کو برباد کر دیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر رزاق داؤد کے دادا سیٹھ احمد داؤد کو جیل میں ڈال کر ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔ بعد ازاں وہ مایوس ہو کر امریکا چلے گئے اور وہاں تیل نکالنے کی کمپنی بنا لی ۔اس کمپنی نے امریکا میں تیل کے چھے کنویں کھودے اور کامیابی کی شرح 100 فیصد رہی۔ آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم تیل کی تلاش کی کھدائی کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کے محتاج ہیں۔ صادق داؤد نے بھی ملک چھوڑ دیا، وہ کینیڈا منتقل ہو گئے۔ ایم اے رنگون والا ایک بہت بڑا کاروباری نام تھا۔ وہ رنگون سے بمبئی آئے اور قیام پاکستان کے وقت سارا کاروبار لے کر پاکستان آ گئے۔ وہ یہاں ایک یا دو نہیں پوری 45 کمپنیاں چلا رہے تھے۔ انھوں نے بھی مایوسی اور پریشانی میں ملائیشیا کا رخ کیا۔ بٹالہ انجینئرنگ کمپنی والے سی ایم لطیف بھی بھارت سے پاکستان آ چکے تھے اور بادامی باغ لاہور میں انھوں نے پاکستان کا سب سے بڑا انجینئرنگ کمپلیکس قائم کیا تھا جو ٹویوٹا کے اشتراک سے کام کر رہا تھا۔ یہ سب بھی ضبط کر لیا گیا۔ انھیں اس زمانے میں ساڑھے تین سو ملین کا نقصان ہوا اور دنیا نے دیکھا بٹالہ انجینئرنگ کے مالک نے دکھ اور غم میں شاعری شروع کر دی۔ رنگون والا، ہارون، جعفر سنز، سہگل پاکستان چھوڑ گئے۔ کچھ نے ہمت کی اور ملک میں ہی رہے‘ جیسے دادا گروپ، آدم جی، گل احمد اور فتح، لیکن ان کا اعتماد یوں مجروح ہوا کہ پھر کسی نے صنعت کاری کو سنجیدہ نہیں لیا۔
احمد ابراہیم کی جعفر برادرز اس زمانے میں مقامی طور پر گاڑیاں بنانے کے قریب تھی۔جو ہم آج تک تیار نہیں کر سکے!
فینسی گروپ 41 صنعتیں تباہ کروا کے یوں ڈرا کہ اگلے 40 سالوں میں اس نے صرف ایک فیکٹری لگائی ، وہ بھی بسکٹ کی۔ ہارون گروپ کی 25 صنعتیں تھیں، وہ اپنا کاروبار لے کر امریکا کوچ کر گئے۔ آج پاکستان میں ان کے صرف دو یونٹ کام کر رہے ہیں۔ کاروباری خاندان ملک چھوڑ گئے یا پاکستان میں سرمایہ کاری سے تائب ہو گئے۔
ادھر بھٹو نے صنعتیں قبضے میں تو لے لیں لیکن چلا بھی نہ سکے۔ ان اداروں میں سیاسی کارکنوں کی فوج بھرتی کر دی گئی۔ مزدور اب سرکار کے ملازم تھے، کام کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ نتیجہ یہ نکلا ایک ہی سال میں قومیائی گئی صنعت کا 80 فی صد برباد ہو گیا۔ زرعی گروتھ کی شرح میں تین گنا کمی واقع ہوئی۔ نوبت قرضوں تک آ گئی۔ جتنا قرض مشرقی اور مغربی یعنی متحدہ پاکستان نے اپنی پوری تاریخ میں لیا تھا اس سے زیادہ قرض بھٹو حکومت نے چند سالوں میں لے لیا۔ خطے میں سب سے زیادہ افراط زر پاکستان میں تھا۔ ادائیگیوں کے خسارے میں 795 فی صد اضافہ ہو گیا۔
اسٹیٹ بنک ہر سال ایک رپورٹ پیش کرتا ہے۔ بھٹو نے چار سال اسٹیٹ بنک کو یہ رپورٹ ہی پیش نہ کرنے دی تا کہ لوگوں کو علم ہی نہ ہو سکے کتنی تباہی ہو چکی۔
اپنی صنعت اپنے ہاتھوں سے تباہ کر کے اب ہم چین کی منتیں کر رہے ہیں وہ یہاں ۤآکر انڈسٹری لگائے۔ دنیا چالیس سال سے کمپیوٹر استعمال کر رہی ہے اور ہم آج تک ایک ماؤس نہیں بنا سکے۔ دنیا 30 سال سے موبائل فون استعمال کر رہی ہے اور ہم آج تک اس کے لیے ایک چارجر نہیں بنا سکے۔
پاکستان کی تباہ حال معیشت کو دیکھیے تو یہ نعرہ کتنا سچا لگتا ہے “کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے!!!”
Categories