تحریر: رضوان طاہر مبین
کل سے فیس بک وغیرہ پر “والز” آئس کریم کے پرانے پوسٹر بہت گھوم رہے ہیں، جس میں مختلف ذائقوں کی آئس کریموں اور قلفیوں کے پیسے لکھے ہوئے ہیں اور بہت سوں کے لیے اس میں گئے برسوں کے کم پیسوں کی رنگینی ہے تو بہتیروں کے بچپن کی کچھ یادیں تازہ ہو رہی ہیں، لیکن ہمارا ماجرا یہ ہے کہ یہ موئی “والز” ہمارے سامنے کا واقعہ ہے۔
ہم تو “اِگلو” اور “پولکا” آئس کریم کی مسابقت کے زمانے میں ہوش سنبھال چکے تھے، جیسے “کوکا کولا” منہ زور “پیپسی” کولا کے سامنے دبی دبی رہتی، لیکن اپنے آپ کو منوائی ہوئی رہی، بالکل ایسے ہی “پولکا” کی منہ زوری اور عروج کے باوجود “اِگلو” آئس کریم بھی کبھی منظر نامے سے ہٹ نہیں سکی، جیسے تیسے جمی ہی رہی (اور آج بھی موجود ہے) یہاں تک کہ 1990 کی دہائی کے آخری برسوں میں یہ اچھلتی کودتی “والز” وارد ہوگئی۔
اس سے پہلے سائیکل پر قلفی ملائی والا ہو یا رنگ چھوڑنے والی سستی قلفیوں والا، صرف بڑی گھنٹی بجانے پر یا ۤآواز لگانے پر اکتفا کرتے تھے، مگر یہ “والز” تھی جدید سائیکل پر جب یہ آئس کریم گلیوں میں آئی تو بچے اس عجوبے ہی کو دیکھنے نکل آئے تھے، کیوں کہ آئس کریم والا نہ آواز لگا رہا تھا اور نہ گھنٹی بجا رہا تھا، بلکہ اس کے پاس آڈیو کیسٹ تھا جس میں ایک چھوٹے اسپیکر پر اس کی جدید موسیقی سے مزین دھنیں بج رہی تھیں۔
لیجیے کثیر القومی ادارے کی “والز” آ تو گئی، لیکن یہ جمی جمائی “پولکا” کو مات کیسے دے، مقابلے سے زیادہ اس نے پولکا کو بالکل ایسے ہی مںظر سے ہٹانے کے جال بچھائے جیسے ہماری اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں کی مقبولیت سے خوف کھا کر انھیں پس منظر میں دھکیلنا چاہتی ہے، لیکن والز چوں کہ اسٹیبلشمنٹ نہیں تھی، اس لیے اس نے اپنی اس خواہش کو اسٹیبلشمنٹ کے برعکس مکمل کام یابی سے ہم کنار کیا، وہ اس طرح کہ اس نے اپنے ابتدائی ایک سے دو برسوں میں ایک زمانے سے مقبول زمانہ آئس کریم “پولکا” کو خرید لیا۔۔۔
لیجیے، اب پولکا کی مشہور اور مقبول ذائقوں کی آئس کریموں کی پیکنگ کے کہیں کونے کھدرے میں والز کی چھاپ دکھائی دینے لگی۔ اپنے اسکول کے فنکشن میں پہلی بار پولکا کے کپ پر یہ حرکت دیکھی تو تب بھی ہمیں اچھا نہیں لگا تھا، تو ساتھ والے ہم جماعت نے بتایا تھا کہ پولکا والز نے خرید لی ہے۔ اور خریدی بھی کیا خرید کر گلا گھونٹ دیا اور دھیرے دھیرے پولکا کی ساری آئس کریم اور نام سمیٹتے گئے اور چپکے چپکے والز بڑھانی شروع کی یہاں تک کہ بہت تھوڑے دنوں میں کام یاب ترین “پولکا” آئس کریم کو قبر میں اتار دیا۔
تو یہ ہے ساری کہانی اس “غیر مقامی” والز کی، جس نے ہماری پیاری آئس کریم پولکا کو قتل کردیا اور آج چاہے کتنی ہی اچھی آئس کریم بنا ڈالیں، ہمیں تو اس کی آئس کریم سے “پولکا” کے لہو کی بو آتی ہے۔
ستم یہ کہ والز آج مجبوراً یہ مانتی ہے کہ وہ آئس کریم نہیں ہے، ہمارا جی چاہتا ہے کہ کہیں والز اپنی مصنوعات پر یہ فقرہ اس طرح لکھوایا کرے کہ “والز آئس کریم نہیں، لیکن یہ ایک مقبول آئس کریم کی قاتل ضرور ہے!”
تو جناب یہ وجہ ہے کہ یہ جو یار لوگ پرانی والز آئس کریم کے پوسٹر دھڑا دھڑ اپنی فیس بک پر مشتہر کیے جا رہے ہیں، ہمیں اتنا زیادہ “مرحوم پولکا” یاد آرہی ہے۔
Categories