Categories
Exclusive Karachi MQM انکشاف ایم کیو ایم پیپلز پارٹی سندھ سیاست قومی تاریخ کراچی مہاجرقوم

“عظیم احمد طارق کی بیوہ نے بتایا کہ انھیں گارڈ نے قتل کیا!”

سمے وار (خصوصی رپورٹ)کراچی کے ممتاز سینئر صحافی سہیل دانش نے انکشاف کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے بانی چیئرمین عظیم احمد طارق کی بیوہ نے ملک سے باہر جاتے ہوئے مجھے اور الیاس شاکر کو بتایا کہ عظٰم طارق کو ان کے گارڈ نے قتل کیا جو چھت پر متعین تھا۔” ان خیالات کا اظہار یوٹیوب پر ایک انٹرویو میں کیا۔ تاہم ناظرین اس حوالے سے حیران ہیں کہ سہیل دانش نے جب یہ بتایا کہ عظیم طارق کی بیوہ نے بتایا کہ ملزم نے آکر ان کا لحاف کھینچا؟ کیوں کہ یکم مئی 1993 کو یہ قتل ہوا۔ اپریل مئی کراچی میں شدید گرمیوں میں شمار ہوتا ہے، لحافت تو یہاں فروری کے بعد استعمال نہیں ہوتے، تو لحاف کھینچا کے کیا معنی؟ دل چسپ بات یہ ہے کہ انٹرویو لینے والے نے بھی اس حوالے سے استفسار نہیں کیا کہ مئی میں لحاف؟سہیل دانش کہتے ہیں کہ عظیم طارق کی اہلیہ نے یہ نہیں بتایا کہ وہ گارڈ ایم کیو ایم کا کا تھا، لیکن میرے خیال میں ہوگا وہ ایم کیو ایم ہی کا۔ اس کے بعد اس کا کیا ہوا، نہیں پتا۔ وہ پکڑ میں نہیں آیا۔ بیوہ نے زیادہ بات نہیں کی اور کہا کہ اب چھوڑیے وہ واپس تو نہیں آسکتے۔انھوں نے مزید بتایا کہ 1988-89 کے زمانے میں بڑے صنعت کاروں نے کہا کہ ہمیں تحفظ دیں ہم چپراسی سے سی ای او تک آپ کی سفارش پر رکھیں گے۔ یعنی کہ کراچی میں امن رہے گا۔ جب ہتھیار آئے تو ایم کیو ایم میں گروپ بنے، اور تشدد ہوا۔ الطاف جانتے تھے کہ اپنا اثر منوانے کے لیے طاقت دکھانی پڑے گی، اسی سے ہتھیار آئے تو گروپ بنے اور پھر یہ لوگ پیسے کی طرف بھی گئے۔اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی اس لیے ہوئی کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ ہمارے مطابق کام کریں، الطاف نے اسے پھلانگنے کی کوشش کی ہوگی۔ اس لیے مخالفت ہوگئی۔ شاہ فیصل کالونی میں “پنجابی پختون اتحاد” سے ایم کیو ایم کے جھگڑے میں ایک جگہ آگ لگی ہوئی تھی، صدر جنرل ضیا وہاں سے گزرے تو انھوں نے کہا کہ یہ سب کیا ہے، پھر کارروائی ہوئی تو نائن زیرو پر پہلے سے پتا چل چکا تھا، اور وہاں کوئی نہیں ملا۔الطاف حسین مرکز پر تالی بجا کر بلاتے تھے تو کبھی سلیم شہزاد او رکبھی کوئی اور آجاتا تھا، آفاق بھی بڑۓ قریبی رہے تھے الطاف حسین کے.الطاف حسین نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ وزیراعلیٰ سندھ میرا آدمی ہو، اور کراچی میں ملک بھر سے جو نقل مکانی ہے، وہ نہ ہو۔ کراچی میں کراچی والا ہو۔وہ کہت تھے کہ طاقت دکھا کرہی خود کو منوا سکتے ہیں۔کراچی میں تشدد آپریشن 1992 سے پہلے آیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ انھیں پکڑ کر تشدد کیا تو ردعمل میں تشدد ہوا۔ مال بنانے کا معاملہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں آیا، جب اختیار بہت مل گئے۔ یہاں خے لوگوں نے بہت پیسے بنائے، سیکڑوں لوگ بن گئے۔ الطاف نے شکایت بھی کی کہ سائیکل سے کہاں پہنچ گئے۔ بیانات سے تو یہی لگتا ہے کہ ان کے بعد کے درجے کی قیادت نے فائدہ اٹھایا۔ صوبہ تو چاہتے تھے، لیکن اگر اس طرح کی لڑائی میں ہوتے تو جی ایم سید سے رابطے میں نہیں ہوتے۔نواز شریف نے ایک بار بلایا کہ آئیے بتائیے کون سے مسائل ہیں تو انھوں نے ہیرالڈ اور نیوز لائن کے شمارے لا کر دکھائے کہ یہ دیکھیے یہ لوگ میرے خلاف لکھتے رہتے ہیں کہ میں یہ کر رہا ہوں وہ کر رہا ہوں، اسے روکیے ، نواز کہتے ہیں کہ میں حیران ہوگیا کہ میں تو بہت تیاری سے آیا تھا کہ ان کے مطالبات سنوں، لیکن انھوں نے تو کوئی ایسی بات کی نہیں۔مجھے لگتا ہے کہ “ایم کیو ایم” کو ایم کیو ایم ہی نے ختم کیا۔ الطاف حسین کہہ لیجیے یا ان کے ساتھ کی قیادت کی بات کرلیجیے۔ انھوں نے عوام سے اس رشتے سے نبھا یا انصاف نہیں کیا۔ ایک دفعہ بقرعید کے بعد ایدھی کا کھالوں کا ٹرک اغوا ہوگیا، انھوں نے پریس کانفرنس میں “ایم کیو ایم” پر الزام لگایا اور انھوں ںے ملک چھوڑنے کا اعلان کردیا کہ میں جا رہا ہوں، اسحق خان نے آصف نواز کو کہا اور انھوں نے الطاف صاحب کو کہا کہ دیکھیے ورنہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، تو وہ ٹرک برآمد ہوگیا تھا۔2013 کا انتخاب پہلا الارم تھا کہ لوگ الطاف سے بدظن ہو رہے ہیں، انھوں نے اس کا بہت سخت نوٹس لیا اور تنظیمی امور کے لوگوں کو کہا تھا کہ گڑبڑ ہوگئی، بہت ناراض ہوئے۔1990 کی دہائی میں نوائے وقت کے رپورٹر ظفر اقبال کو ایم کیو ایم کے خلاف خبر لگانے پر سیکٹر انچارج نے بلاکر تڑیاں لگائیں، میں نیر علوی کی جگہ ایڈیٹر کی ذمہ داری ادا کر رہا تھا، انھیں کہا تو وہ کہنے لگے کہ آپ بیچ میں سے ہٹ جائیں، میں نے کہا آپ بتائیے کہاں ہیں میں آجائوں، وہ بولا کہ اتنا بہادر آدمی پہلی بار دیکھا ہے، جو ہم سے کہہ رہا ہے کہ بتائیے کہاں آنا ہے۔ پھر میں نے الطاف حسین کو فون کیا، امین الحق نے بات کرادی تھی، الطاف کو بتایا کہ فون رکھیں پریشان نہ ہوں، ایک گھنٹے بعد جیپ میں کچھ لوگ آگئے ملنے۔ وہی سیکٹر انچارج گن مین کے ساتھ آگئے، میں نے کہا کہ انھیں باہر بھیجیں، انھیں باہر بھیجا اور کہا کہ آپ نے تو ہماری شکایت بھائی کو کردی، آپ انھیں کہیں کہ وہ ہمیں معاف کردیں، تو پھر میں نے کہہ دیا، اس پر انھوں نے مٹھائی وٹائی دی، میں نے دفتر میں بانٹ دی۔ اب شاید الطاف کو اجازت نہیں ملے، ان کے خلاف الزامات بڑے سخت ہیں۔ (صحافی سہیل دانش کا یہ انٹرویو گذشتہ دنوں نشر ہوا۔)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *