تحریر: ڈاکٹر شاہد ناصر
23 اگست 2023 کو ہندوستان نے ایک تاریخ رقم کردی۔ وہ نہ صرف چاند پر پہنچنے والا چوتھا ملک بن گیا، بلکہ چاند کے قطب پر پہنچنے والا پہلا ملک بھی بن گیا ہے۔ ہندوستان بھر میں جشن ہے اور کیوں نہ ہو وہ بجا طور پر اس کا حق رکھتے ہیں۔
اس موقع پر چوں کہ ہندوستان پاکستان جڑواں ممالک ہیں، لگ بھگ ایک جیسے مسائل اور ایک جیسے ماحول رکھنے والے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اور ایک ساتھ ہی آزاد ہونے والے ہیں۔ اس لیے انھیں روایتی حریف بھی کہا جاتا ہے، دونوں ممالک اپنے اپنے بجٹ کا ایک خطیر حصہ دفاع کے نام پر ہتھیاروں اور اسلحے پر خرچ کردیتے ہیں، اس کے باوجود ہندوستان خلا میں سبقت لے گیا، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ پاکستان سے حجم میں اتنا بڑا ہے کہ اس کا بجٹ کا دفاعی تناسب اتنا نہیں بگڑتا، جتنا ہم جیسے بھارت سے دس گنا چھوٹے ملک کا بجٹ کا تناسب بگڑ جاتا ہے، اس کے باوجود اس لیے یہ بحث چل نکلی ہے کہ پاکستان کیوں نہیں پہنچا چاند پر؟
حالاں کہ ہمارے تو جھنڈے میں بھی چاند تارہ موجود ہے، لیکن ہم صرف اپنے عوام کو دن میں تارے دکھانے والے ہی رہ گئے۔ اس 23 اگست سے ایک روز قبل ہی بٹگرام میں چیئر لفٹ میں مسافروں کے پھنسے کے بعد بارہ گھنٹے تک جاری “آپریشن” سے جو سبکی ہوئی ہم اس پر بات نہیں کریں گے، صرف ایک چھوٹی سی بات ہے اور ایک مماثلت ہے، جس کا جواب یہ ہے کہ ہماری ترجیحات ہی مختلف ہیں۔ ہو نہ ہو اس کا جواب بھی ہمیں ایک اور 23 اگست میں ملتا ہے، یعنی 23 اگست 2016!
ایم کیو ایم میں ریاستی جبر کے نتیجیے میں بالآخر ہونے والا “مائنس ون” یا “مائنس الطاف”!۔
23اگست 2016 کو وزیراعظم نواز شریف کے دور میں ہونے والا کاری وار متحدہ قومی موومنٹ کو اپنے بانی وقائد الطاف حسین سے الگ ہونے پر مجبور کر گیا جو تاحال بحال نہ ہوسکا ہے۔ اور 23 اگست 2023ئ کو ہندوستان چاند پر پہنچ چکا ہے۔ بس اسی اتفاقی مماثلت میں سبھی جواب پنہاں ہیں، کہ ہم چاند پر کیوں نہ جاسکے، اور ہمارا یہ حال کیوں ہے۔ کاش ہم ایسے نہ ہوتے اور ہماری ترجیحات ایسی نہ ہوتیں تو ہم شاید بہت پہلے چاند پر پہنچنے کی خوشیاں منا رہے ہوتے!
Categories