(تحریر: رضوان طاہر مبین)
”ارے، تم خوامخواہ جذباتی ہو رہے ہو، یہ صرف یہاں والے کا نہیں، بلکہ اس ملک میں سبھی کا یہ مسئلہ ہے!“
”اوہو، یہ تو دراصل ظلم کا ایک سلسلہ ہے نہیں، نہیں! یہ خاص شہر کے ساتھ نہیں ہو رہا، تم دیکھ لو، ہر شہر کے ساتھ ہی ایسا ہو رہا ہے!“
”افف، نہیں بھئی، خاص تمھارے لیے ایسا کچھ بھی نہیں، یہاں تو ہر عام شہری کو ایسے ہی ذلیل کیا جاتا ہے، ہر ایک کے لیے عدم تحفظ اور مساوات، انصاف، انسانی حقوق اور آئینی مسائل موجود ہیں!“
ایسے ہی کچھ کلمات اکثر سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں کہ جب ہم کبھی کراچی والوں، مہاجر، پانچویں قوم یا اس شہر کی حق تلفی پر کوئی بھی بات کرتے ہیں اور سچی بات ہے کہ ہمیں پھر ان لوگوں کی یہ باتیں محسوس بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ ہم بار بار یہ سوچتے ہیں کہ کیا واقعی ہم کہیں غلطی کر رہے ہیں؟ کیا واقعی ہم خوامخواہ ’جذباتی‘ اور ’حساس‘ ہوئے جا رہے ہیں؟ ہر لمحے اپنے ضمیر سے یہ جواب سوال اور باطن میں یہ ساری حجت جاری رہتی ہے، آئے روز مَن میں یہ ٹٹول ہوتی ہے کہ کہیں اپنے حق کی بات کرتے کرتے جذبات میں کوئی غیر مناسب اور غیر متوازن فقرہ نہ کہہ جائیں کہیں کسی ظلم کی راہ یا مظلوم کی بیخ کنی کا ذریعہ نہ ہو جائیں، الحمدللہ، ہمیں ہر بار یہ اطمینان ضرور ملا ہے کہ اگرچہ کبھی کبھی اظہار میں کوئی چُوک ہوئی تو ہوئی، لیکن مجموعی طور پر ہمارا موقف بہت مستحکم ہے، ہر چند کہ اس کے نتیجے میں ہم اکثر تنہا رہ جاتے ہیں، لیکن ہمیں اس بات پر بہت ’شانتی‘ ہے کہ ہم نے اپنے شہر اور اپنی قوم کے بنیادی حقوق کا مقدمہ اکثر بغیر کسی مصلحت اور بغیر کسی ’اگر مگر‘ کے لڑا ہے اور انصاف کے ساتھ اپنے لوگوں کے مساوی انسانی حقوق اور آئینی مرتبے کی بحالی کی آواز بلند کی ہے، لیکن اس کے جواب میں بہت سے بے جا اعتراضات بھی سنے ہیں!
آج ہم احباب کے کچھ ایسے ہی ’اعتراضات‘ کے جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا واقعی ہم خوامخواہ اپنی قوم کے لیے ’جذباتی‘ اور ’حساس‘ ہیں اور ہمارا یہ سب سوچنا اور کہنا ایک ’غیر ضروری ابال‘ ہے؟ بات وہی ہے یعنی ’کراچی‘ اور ’مہاجر!‘
ہمارا یہ ملک مختلف قوموں کا گُل دستہ ہے، یہاں ہر ایک زبان بولنے والا اہم اور اپنے مساوی انسانی حقوق رکھتا ہے، اسے یہ حق ہے کہ اس کی ثقافت کا تحفظ اور شناخت کا مان ہو۔ اسے بھی وہ تمام حقوق ملیں، جو یہاں کسی بھی دوسری قوم کو حاصل ہیں۔ اسے باقاعدہ کسی بھی حق سے محروم نہ کیا جائے، اس کی آواز کو بھی سنا جائے، اس کے حق کو تلف اور اس کی سانسوں کو سلب نہ کیا جائے، اس کے جان ومال کا مکمل تحفظ ہو، اس کو اپنے وسائل پر پورا اختیار ملے، وہ اپنے گلی اور محلے سے لے کر اپنے شہر، ضلعے، ڈویژن اور صوبے سے لے کر ملکی سطح تک سر اٹھا کر اور پُروقار انداز میں اپنے تمام حقوق سے استفادہ کرے!
لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا آج کراچی کے شہریوں کو بھی یہ سب حقوق حاصل ہیں؟ اور کیا ملک کے باقی شہروں کے مقابل اس کے مسائل کی شدت کہیں زیادہ نہیں ہے؟ آئیے، آج اس کا تفصیل جائزہ لیتے ہیں۔
٭ شناخت پر سوال
آپ ہمیں بتائیے کہ وطنِ عزیز کی وہ کون سی قوم ہے کہ جس کے جداگانہ وجود کو تسلیم تک کرنے میں عار محسوس کی جاتی ہے؟
یقیناً وہ اور کوئی نہیں بلکہ ’مہاجر‘ ہی ہیں! بھئی، آخر دوسرے کون ہوتے ہیں اس بات کا تعین کرنے والے کہ ’کراچی والوں‘ کی قومی شناخت ’مہاجر‘ کے بہ جائے اور کوئی واہیات اور بے تُکی قسم کی ہونی چاہیے! آپ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ آپ کراچی اور حیدرآباد سے باہر بیٹھ کر ہمارے شہر والوں کی قسمت کے فیصلے کریں اور پھر ہمیں پڑھائیں کہ فلاں برا ہے اور فلاں پاک پَوِتر! آپ ہوتے کون ہیں ہمیں یہ بتانے والے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں!
لیکن ٹھیرے، یہ شاید ہم نہیں، بلکہ ہمارے دِلوں میں چُھپا ہوا بغض اور عناد بولتا ہے، کیوں کہ ہمیں مہاجر شناخت اور مہاجروں کا کراچی اور حیدرآباد سمیت شہری سندھ پر اختیار اور غلبہ کبھی بھایا ہی نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہر سطح پر ان کا قَلع قَمع ہوتا رہے، تبھی ہم ان سے ان کے سیاسی انتخاب کا حق چھیننے پر چُپکے رہتے ہیں، بلکہ اس واسطے عذر بھی تلاش کر کے لاتے ہیں۔
٭ بدترین ریاستی جبر
یہ بات سب پر عیاں ہے کہ کراچی کو گذشتہ آٹھ برسوں یعنی 2016ءسے آزادانہ سیاسی نمائندگی کا حق ذرا سا بھی حاصل نہیں، کیوں کہ اب بھی یہ ’خطرہ‘ ہے کہ جیسے ہی کراچی والوں کو سیاسی آزادی ملی، ویسے ہی وہی سابقہ سیاسی نمائندگی ابھر کر سامنے آجائے گی، جو کہ یہاں کسی صورت بھی قابل قبول نہیں!
بتائیے، اس ملک کی اور کون سی ایسی قوم ہے، جس کے ساتھ ایسا سلوک ہوا، یا ہو رہا ہے؟
یقیناً یہ ’رسوائی‘ صرف اس ملک کے معاشی دارالحکومت کراچی کی مانگ سجانے اور ملک کی پانچویں قوم اور الگ شناخت کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ ہو رہی ہے، جو اپنے شہر کے تباہ حال ہونے کے باوجود بھی کئی بڑے شہروں سے زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس کے بدلے میں انھیں ملتا کیا ہے؟ صرف گالیاں! رسوائیاں، تعصب، طعنے، تشنے، سیاسی جبر اور پابندیاں، جان ومال کا خوف، لاپتا ہونے کا دھڑکا اور اس پر اہل ادب وصحافت کی مجرمانہ خاموشی اور اس سے بھی بڑھ کر اس ریاستی جبر کے لیے طرح طرح کی عُذر تراشیاں!
شاید آپ کہیں گے کہ بلوچستان کے ساتھ بھی تو یہی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے، تو یہاں ذرا سا غور کیجیے کہ بلوچستان میں مختلف گروہ تو ریاست کے خلاف سرگرمِ عمل ہیں، لیکن کیا آج تک کراچی کے لوگوں نے اس انتہا کو چھوا ہے؟ بلوچستان میں فوجی آپریشن ضرور ہوئے، لیکن وہ ایک بہت بڑا صوبہ اور پہاڑی علاقہ ہے، اس کے مقابلے میں چھوٹا سا کراچی شہر اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی سزا میں ایک عشرے سے مجموعی طور پر چوتھا ریاستی آپریشن جھیل رہا ہے، یہاں تو کبھی ریاست پر حملے نہیں کیے گئے، لیکن اس کے باوجود امن وامان کے قیام کے نام پر اس شہر کے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سمیت کچل کر رکھ دیا گیا ہے، اور اس پر احتجاج کی کوئی آواز نکلتی ہے، تو کوئی اور تو کچھ کہے نہ کہے، اسی شہر میں بسنے والے بدبخت صحافی، منافق کالم نگار، مصلحت کوش ادیب اور دانش وَر ہی منہ بنانے لگتے ہیں، اور اس ’جرم‘ کی پاداش میں بولنے والوں کو ’بریکٹ‘ کرتے ہیں، اُن پر کوئی چھاپ لگا دیتے ہیں کہ آپ فلانی پارٹی کے ہیں اور کچھ نہیں تو متعصب قرار دے دیتے ہیں!
اب آپ بتائیے کہ کون سا آئین ہے کہ جو ہمارے ساتھ یہ سب کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ کیا آئین ملک کی ہر قوم کے بنیادی سیاسی، سماجی اور قانونی حقوق بہ شمول ثقافتی تحفظ فراہم نہیں کرتا؟ اگر کرتا ہے تو پھر یہ سب کیوں؟
٭ ثقافتی قتل عام
آپ ہمیں بتائیے کہ اس ملک کا وہ کون سا شہر ہے کہ جہاں کے اداروں میں اسی شہر کی ثقافت ہی کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی، اس کے شہر کے درودیوار سے لے کر سڑکوں پر بنائی گئی بالائی گزرگاہوں تک پر یہاں والوں کے بہ جائے صرف دوسرے ثقافتی نمونے دکھائی دیتے ہیں۔ شاہ راہ فیصل سے کلفٹن تک، کہیں ’سندھی اجرک‘ چھاپ دی گئی ہے، تو کہیں دھڑلے سے سرائیکی اجرک رنگ دی گئی ہے! آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
وہ کون سا شہر ہے، جہاں کی صحافتی و ثقافتی تنظیمیں، ادارے اور ادبی انجمنیں کھلم کھلا ’غیر مہاجر‘ ثقافت کی عَلم بردار ہیں اور مہاجر ثقافت، مہاجر شہر ہی میں بڑے آرام سے کچل کر رکھ دی گئی ہے، اور اس ظلم کے خلاف کان لگا کر سننے سے بھی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی! حد یہ ہے کہ اکتوبر 2024ءمیں ’قائداعظم اکادمی‘ کے اشتراک سے ہمدرد یونیورسٹی میں ’یوم لیاقت‘ پر بھی مہمانوں کو اجرک اوڑھائی گئی اور ابھی 25 دسمبر کو قائداعظم کی یوم پیدائش کی تقریب میں بھی یہی عمل دُہرایا گیا!
اس ملک میں کون سا نگر ایسا ہے، جس کے ثقافتی، پیشہ ورانہ اور کمیونٹی کلبوں اور بیٹھکوں میں بھی غیر مقامی ثقافتوں کی بہار دکھائی دیتی ہے اور دانستہ وہاں کی مقامی ’مہاجر ثقافت‘ اجنبی بنا دی گئی ہے! حد تو یہ ہے کہ 14 اگست کو ’میکڈونلڈ‘ تک میں باری باری ملک کی ساری ثقافتیں دکھائی گئیں، لیکن ’مہاجر ثقافت‘ کا کوئی ذکر ہی خیر نہیں ہوا!
پاکستان کا وہ کون سا ایسا شہر ہے کہ جہاں سوائے ہمارے، اِس ملک کی ہر قوم کی ثقافت کی بھرپور ترویج ہو سکتی ہے، 2024ءمیں ’کراچی آرٹس کونسل‘ میں 44 ملکوں کا 35 روزہ ’عالمی ثقافتی میلہ‘ سجایا گیا، لیکن اس کی کسی بیٹھک میں بھی ایک لمحے کے لیے بھی ’مہاجر ثقافت‘ کی گنجائش نہ مل سکی!! یہی نہیں اس کے علاوہ بھی آرٹس کونسل میں کبھی مہاجر ثقافت کا اظہار نہیں ہو سکا، نہ ہی یہاں ’یوم مہاجر ثقافت‘ کے واسطے چند گھنٹوں کو اسٹیج میسر ہوا ہے! بتائیے، اس ملک میں ایسا طرز اور کہاں ہو رہا ہے؟
ملک کا وہ کون سا صوبہ ہے، جہاں طے شدہ امر ہے کہ وہ ایک ’ذولسانی‘ صوبہ ہے، لیکن اس کے باوجود وہاں کے محکموں میں دوسری زبان کی کند چُھری سے اردو کا ذبیحہ کیا جا رہا ہے اور اس کے سارے محکموں میں بھی صرف دیہی ثقافت کا راج ہے؟
ہمیں یہ بتائیے کہ پاکستان کی وہ کون سی قوم ہے کہ جس پر ایک دوسری زبان مسلط کر دی گئی ہے اور اسے تھانوں میں ’ایف آئی آر‘ تک میں لاگو کر دیا گیا ہے؟
وہ کون سا ایسا شہر ہے کہ جس کی گاڑیوں کی نمبر پلیٹ تک میں بھی صوبے کی ’دیہی‘ ثقافت کی علامت چھاپ دی گئی ہے؟
وہ کون سا شہر ہے، جہاں پورے ملک کی مختلف ثقافتوں کو ابھارا جارہا ہے اور انتہا یہ ہے کہ یہاں پختون راہ نما شاہی سید اور ایمل ولی کبھی ’جشن خیبر پختونخوا‘ مناتے ہیں، تو کبھی پختون یوم ثقافت پر یہاں آکر پروگرام کرتے ہیں، لیکن ’مہاجر ثقافت‘ کے ذکر پر ہر جگہ مسائل کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔
٭ مقامی اداروں پر وار!
پاکستان کا وہ کون سا شہر ہے کہ جہاں ’بانی پاکستان‘ کو ’سندھی‘ کہنے کے دعوے کیے جانے کے باوجود ان کے نام کے حصے ’جناح‘ کو بھی برداشت نہیں کیا گیا اور ’جناح میڈیکل یونیورسٹی‘ کو بھی ”جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی“ بنا کر دم لیا گیا؟
وہ کون سا شہر ہے کہ جس کے اداروں تک سے ’کراچی‘ کا نام چھینا جا رہا ہے، اور ’کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی‘ کو ’سندھ بلڈنگ کنٹرول بدل کر کے اپنے متعصبانہ ذہنیت کی تسکین کی گئی؟ کہیں ’کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی‘ کے متوازی ’لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ اور ’ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ کھڑی کر دی گئی ہیں؟
وہ کون سا شہر ہے کہ جہاں کے اداروں کے ناموں تک میں مخصوص چھاپ لگانے کا کوئی انت ہی دکھائی نہیں دیتا، کبھی سول اسپتال کے ٹراما سینٹر کو ’بے نظیر‘ کے نام سے لگا دیا جاتا ہے، کبھی ’کارڈیو‘ کے ’نیشنل انسٹی ٹیوٹ‘ کو ’سندھ انسٹی ٹیوٹ‘ کے طغرے سے کچل دیا جاتا ہے! کراچی کی مرکزی شاہ راہِ فیصل ’نصرت بھٹو انڈر پاس‘ سے شروع ہوکر پیپلز پارٹی کی راہ نما ’فوزیہ وہاب فلائی اوور‘ سے ان کے مقتول کارکن کے نام ’منور سہرودی انڈرپاس‘ پر ختم ہو جاتی ہے! بتائیے، ایسا کہاں ہو رہا ہے؟
وہ کون سا شہر ہے کہ جس کی دوسری بندرگاہ کو ’دیہی‘ نقطہ نگاہ سے نوازنے اور ’کراچی پورٹ ٹرسٹ‘ کو گھٹانے کی ’مطلق العنان‘ سوچ سامنے آتی ہے، جیسے ’وفاق‘ کا بس چلے، تو وہ کراچی سے سمندر بھی اپنے ہاں لے جائے!
وہ کون سا ایسا شہر ہے جہاں صوبائی حکومت کھٹارا بسوں سے جھوجھتے شہریوں کو نئی مسافر بسیں دیتی ہے، تو اُس تک کو ’پیپلز بس سروس‘ قرار دیتی ہے، حتیٰ کہ ایس ایم لا کالج کے برابر کی پوری سڑک ’تفریح گاہ‘ کے نام پر گھیر لی گئی اور اسے ’پیپلز اسکوائر‘ کا نام دے دیا گیا ذرا بتائیے کہ یہ غاصبانہ سوچ اور کس قوم اور کس شہر کے لیے پائی جاتی ہے؟
٭ منظم ہرزہ سرائی
اس ملک کی وہ کون سی قوم ہے کہ جس کے خلاف ہر کچھ دن کے بعد نفرت و تضحیک آمیز رویے اور شرم ناک باتیں بہت آسانی سے کر دی جاتی ہیں، کبھی افغان پناہ گزینوں کا مقدمہ لڑتے ہوئے ان کا موازنہ شرم ناک طریقے سے مہاجر قوم سے کر دیا جاتا ہے تو کبھی صوبائی حکم راں جماعت کے ارکان سندھ کی اسمبلی میں مہاجروں کو شناختی کارڈ دینے اور ان کے شناختی کارڈ کی جانچ کی بات کرتے ہیں۔ کبھی کوئی ’بدبخت یوٹیوبر‘ بھدّے لطیفوں میں مہاجر قوم کی قربانیوں اور ان کی ہجرت پر ٹھٹھے لگاتا ہے! اور تو اور اردو ڈراموں سے نام وری سمیٹنے والی نور الہدیٰ شاہ ماہ نامہ ’اطراف‘ میں فاطمہ ثریا بجیا کے ڈراموں کی ثقافت کو ’امپورٹڈ کلچر‘ قرار دے دیتی ہیں، اور وہ چَھپ بھی جاتا ہے اور کسی ایک فرد کو بھی کہیں بھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی!
پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ حضور! دوسری اقوام دراصل ’ردعمل‘ میں مہاجروں کو کوستے اور لعن طعن کرتے ہیں، ہم نے خوامخواہ خود کو ’مہاجر‘ کہلوا کر اپنی شامت بلوائی۔ تو آج خود دیکھ لیجیے ، جبر تلے دبے ہونے کے باوجود ’مہاجر قوم‘ سے نفرتوں کے اظہار نہیں تھم رہے اور کیا پاکستان میں کسی اور قوم کو اتنی آسانی سے ہدف بنایا جا سکتا ہے کہ جب چاہا منہ اٹھا کر اس پر تبرّا بھیج دیا اور ہمارا منافق دانش وَر اپنی ’سَتر‘ ڈھانکنے کو لفظوں کی کوئی دھجی بس ڈھونڈتا ہی رہ جائے؟
Categories