(تحریر: ڈاکٹر شاہد ناصر)
گذشتہ کچھ عرصے سے کراچی میں قائم قائد اعظم اکادمی کی تقریبات دیکھنے کا اتفاق ہو رہا ہے۔ عمران خان کی حکومت نے جہاں بچت کے نام پر اردو لغت بورڈ اور مقتدرہ قومی زبان جیسے اداروں کی جداگانہ حیثیت ختم کی، وہیں قائداعظم بھی ان کی غفلت کا نشانہ بنی، ایک عرصے سے یہاں بھرتیوں اور بجٹ کے حوالے سے صورت حال ناگفتہ بہ ہے۔ اور خواجہ رضی حیدر کے بعد سے کوئی باقاعدہ ڈائریکٹر متعین نہیں کیا گیا، بلکہ ایک زاہد حسین ابڑو جیسے منظور نظر کو اتنی اہم تحقیقی مسند سونپ دی گئی ہے۔ جو یوم قائداعظم سے لے کر یوم لیاقت اور دیگر قومی دنوں پر جیسی تیسی تقاریب کروا تو لیتے ہیں، لیکن ان قومی دنوں کو صوبائی ثقافت کی نمائش بنا کر رکھ رہے ہیں، دھڑلے سے ان پروگراموں میں سندھی اجرکوں کا بازار لگایا جاتا ہے اور کوئی پوچھتا نہیں ہے کیا قائداعظم صرف سندھ کے تھے؟ اور قائداعظم اکادمی ویسے بھی کراچی میں قائم ہے، لیکن سندھی ڈائریکٹر مسلط کرنے کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اس نے نہ صرف اکادمی کی ساکھ کو دائو پر لگا دیا ہے، بلکہ کراچی پریس کلب، کراچی بار، کراچی چیمبر، کراچی آرٹس کونسل کی طرح اب قائداعظم اکادمی بھی بات بے بات پر اجرکوں کے چڑھاوے چڑھاتی ہوئی نظر آتی ہے۔
ہمیں کسی کی ثقافت سے کوئی لینا دینا یا دشمنی نہیں ہے، لیکن جب ہمارے شہر اور ہمارے نگر میں اس بے تکے طریقے سے دوسری ثقافت مسلط کی جائے گی تو یہ امر کسی صورت کوئی صحت مندانہ اقدام قرار نہیں پائے گا، میری حکام بالا سے گزارش ہے کہ اس صورت حال کا نوٹس لیں اور کراچی کے سیاسی حقوق کی بات کرنے والی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ کراچی میں جاری اس ثقافتی تسلط کی بھرپور مزاحمت کریں۔
Categories