Categories
Karachi MQM Rizwan Tahir Mubeen انکشاف رضوان طاہر مبین کراچی مہاجرقوم

شہر قائد ’کراچی والوں‘کے لیے جہنم!

(تحریر: رضوان طاہر مبین)
آج کراچی شہر اپنے شہریوں کے لیے جہنم بن چکا ہے، ذرا سوچیے کہ پاکستان کا وہ کون سا شہر ہے، جو عروس البلاد کہلاتا تھا، آج ایسی خوف ناک تباہ حالی کا بھیانک منظر پیش کر رہا ہے کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کہتے ہیں یہ مسئلے سبھی کے ساتھ ہیں، لیکن یہ تو بتائیے کہ پاکستان کا وہ کون سا ایسا شہر ہے کہ جو ملکی آمدنی کا 70 فی صد کما کر دینے کے باوجود سات فی صد تک کا حق دار قرار نہیں پاتا؟
وہ کون سا ایسا نگر ہے کہ جس کا پانی اسی شہر کو دھڑلے سے بیچا جا رہا ہے اور پھر اس نہ ملنے والے پانی کا بل بھی اسی سے وصول کیا جا رہا ہے؟ پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ کراچی کی مخصوص سمندری آب وہوا اور پھر یہاں بڑھتی ہوئی آلودگی کے سبب اگر روز نہ نہایا جائے، تو جلد عجیب چِپچِپی سی رہتی ہے، یہی نہیں آلودہ ہوا کے سبب لباس بھی بہت جلدی میلا ہوتا ہے، لیکن کیا کیجیے ریاست نے اس شہر کے لیے کوئی بھی آواز ’زندہ‘ ہی نہیں رہنے دی!
آج کراچی ایک کھنڈر اور تباہ حال نگر ہے، اس ملک کا کوئی بڑا شہر ایسا نہیں ہوگا کہ جس کا آدھا کچرا گلیوں، سڑکوں اور اس کے اطراف میں پڑا سڑتا رہتا ہو! یہاں تو مرکزی شاہ راہوں تک کے کناروں پر ملبے اور کوڑے کرکٹ کے انبار نظر آنا عام ہیں اور صوبائی وڈیروں نے کچرا اٹھانے کے پیسے کراچی والوں کے بجلی کے بل میں شامل کر دیے گئے ہیں!
پاکستان کا وہ کون سا بدنصیب شہر ہے کہ جس کی شاید کوئی ایک سڑک بھی کسی کو دکھانے کے لائق نہیں؟ کہ اگر سڑک کے کسی ٹکڑے پر ٹوٹ پھوٹ نہ بھی ہو تو اس کی ٹوٹی فٹ پاتھیں اور کچرے کے ڈھیر اس کے برباد منظر کی عکاسی کرتے ہیں!
وہ کون سا شہر ہے کہ جہاں وڈیرے ایک کٹھ پتلی اور للو پنجو میئر قابض کرا کے اسے ’حکومت سندھ‘ کا ترجمان اور ’بلاول کی نمائندگی‘ کا فریضہ بھی لاد دیتے ہیں؟
ایک طرف پورے ملک سے کراچی کی طرف منظم نقل مکانی بڑھ رہی ہے، تو دوسری طرف کراچی پر راج کرنے کے خواب دیکھنے والے بدنیت وڈیرے اس شہر کے مضافات میں گوٹھ بنوا کر اسے کراچی شہر میں شامل کر رہے ہیں اور اس مذموم مقصد کے لیے کراچی کے باقی چھے اضلاع سے دُگنا بڑا ضلع ملیر بنا کر اس شہر میں ضم کیا گیا ہے!
٭ یرغمال تفریح گاہیں!
کراچی میں ویسے ہی گنی چنی تفریح گاہیں ہیں اور وہ بھی تہذیب سے عاری ’غیر مقامی جَتھوں‘ کے ہاتھوں یر غمال بن چکی ہیں۔ اس شہر میں آکر پڑنے والی ہر قوم کے ’ٹانٹے‘ یہاں کے ہر چھوٹے بڑے ادارے میں موجود ہیں اور پھر وہ اپنی قوم کو کھل کر ہر جائز اور ناجائز مدد بھی فراہم کر رہے ہیں۔ یہاں اگر کسی نے کوئی سنگین جرم کیا ہو، کوئی کہیں پکڑا گیا ہو، آپ اسے کسی کے بھی حوالے کر دیں، وہاں کوئی نہ کوئی ان کے آبائی علاقوں والا نکل آئے گا اور آپ اپنے ہی لاوارث شہر میں اپنا سا منہ لے کر رہ جائیں گے! کیا وقت آگیا ہے کہ اس شہر والے کی سنوائی اب ان کے اپنے شہر میں بھی نہیں رہی!
اب مہاجر کے نصیب میں اپنے کسی بھی قانونی حق کے لیے ذلیل اور خوار ہونا لکھ دیا گیا ہے۔ اب یہاں آئے روز غیرت کے نام پر قتل کیے جا رہے ہیں، قبائلی دشمنیاں ’نمٹائی‘ جا رہی ہیں، تلخ کلامی اور خاندانی دشمنی کی قتل وغارت اور ’کارو کاری‘ کے واقعات بھی بہت زیادہ عام ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف ہماری خواتین اپنی ہی گلیوں اور بازاروں میں ہراساں اور پریشان کی جا رہی ہیں، کہیں کوئی تحفظ کا احساس بھی دور دور تک موجود نہیں ہے! ہر طرف مختلف فشاری گروہوں کا راج ہے اور یہ سب اب کہیں اور نہیں، بلکہ ہمارے شہر میں ہمارے اپنے محلوں اور گلیوں کے اندر تک پہنچ چکا ہے!
٭ بدمست ٹینکروں اور ٹرالروں کے حملے!
چوں کہ کراچی کی سڑکیں ناکافی، فٹ پاتھیں غائب اور تجاوزات کی بھرمار ہے، پھر یہاں پورے ملک سے نقل مکانی کرنے والوں کا دور دورہ ہے، شہر میں رہنے کی جگہ ویسے ہی باقی نہیں، چاروں صوبوں سے لوگ بسوں میں بھر بھر کے لا کر پُلوں کے نیچے اور فٹ پاتھوں پر بسائے جا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں یہاں ٹریفک جام ہونا معمول کی بات ہے۔ عام کراچی والا آئے روز ٹینکروں اور کنٹینروں کی بے رحمانہ دوڑ میں کچلا جا رہا ہے۔ صرف اپریل تا اکتوبر 2024ءٹریفک حادثات میں 500 شہری ہلاک اور 5 ہزار زخمی ہوئے۔ ٹریفک حادثات میں بھی اسی نقل مکانی اور ان کے ہاتھوں موجود بے ہنگم بھاری گاڑیوں کا ہی دوش ہوتا ہے، جو اپنے ٹینکر، کنٹینر اور ٹرالر سے لوگوں کو مار کر بہ آسانی فرار بھی ہو جاتے ہیں یہاں ہر روز ہی کسی نہ کسی علاقے میں سڑک حادثوں کی نذر ہونے والوں کی لاشیں اٹھ رہی ہیں کوئی زخموں پر مرہم رکھنے کو تیار نہیں!
عام ٹریفک جام کی اس دھینگا مشتی میں کبھی غلطی سے اگر کوئی کراچی والا نگاہ بھی اٹھا لیتا ہے، تو اسے پھر غیر مقامی منہ زوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بات ’تُوتڑاخ‘ سے اگلے لمحے ہی اس کے گریبان پر ہوتی ہے، کیوں کہ اب اُس کے شہر میں اُس کے سوا ملک کی ہر چھوٹی سے چھوٹی قوم اور ہر ’برادری‘ تک مکمل طور پر مسلح اور منظم کر دی گئی ہے اور اب یہاں کراچی والوں ہی کا عزت سے رہنا ناممکن بنایا جارہا ہے۔ ذرا ہمیں بتائیے کہ یہ بے بسی اس ملک میں اور کہاں اور کس شہر میں کس قوم کے ساتھ پائی جاتی ہے؟؟
شہر میں اس ٹریفک کے ازدہام میں اب ایک نیا وار کراچی سے چاروں صوبوں کے لیے چلنے والی دیو ہیکل بسوں کی صورت میں ہوا ہے، کیوں کہ عدالتی حکم پر صدر اور کینٹ اسٹیشن وغیرہ سے ان بسوں کے غیر قانونی اڈے ختم کر دیے گئے ہیں، تو انھوں نے اب نیا طریقہ نکال لیا ہے اور یہ شہر کی سڑکوں پر اپنے مسافر سوار کراتی پھر رہی ہیں اور بھیڑ کے وقت میں مختلف مصروف سڑکوں پر کھڑی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، جس سے ٹریفک جام اور حادثات میں اور بھی اضافہ ہو رہا ہے، پھر بات وہی ہے کہ یہ کراچی ہے، یہاں سوال کون کرے گا؟؟؟ یہ ایک بدترین اور مقبوضہ شہر ہے، جس کا کوئی پرسان حال نہیں!
٭ غلاظتیں اور بیماریاں
ہم کراچی والے ہیں، ہمیں اپنی ضرورت کے وسائل آدھے بھی نہیں ملتے، اُسے بھی ”کراچی سب کا ہے!“ کے نعرہ لگا کر پر پورے ملک سے آنے والے نگل جاتے ہیں، نتیجتاً ہمارے نصیب میں صرف کچرا کنڈی ہی باقی بچتی ہے۔ شہر کی انھی بربادیوں کے سبب کراچی والوں کو ایک خطیر رقم اپنے علاج معالجے اور مختلف ادویات کی مد میں خرچ کرنی پڑ رہی ہے۔ گھر سے باہر نکلیے، تو کھنڈر سڑکوں کے گڑھوں میں اپنے ہاتھ پاﺅں تڑوا لیجیے! جا بہ جا کھلے ہوئے گٹروں اور ٹوٹے ہوئے نالوں میں گر جائیے! اُدھڑی سڑکوں سے بائیک سوار نوجوانوںکی کمریں ٹوٹ رہی ہیں، کثیف دھویں سے آدھی آبادی بلڈپریشر، دل، دمے اور سانس کی مختلف بیماریوں کا شکار ہو چکی ہے۔ گندگی کے سبب مختلف وبائی بیماریوں کے وار علاحدہ جاری رہتے ہیں۔ مرکزی سڑکوں کے کنارے ریت اور ملبے کے بڑے بڑے ڈھیر جمع ہونے سے شہر کے مرکز میں بھی کسی دیہات کا گماں ہوتا ہے۔ اگر ہوا بھی چلتی ہے تو کیچڑ میں لتھڑے ہوئے خالی شاپر آپ کے منہ پر آکر چپکتے ہیں! گندے سَندے کاغذ اور کچرے کے لوازمات اڑ اڑ کر آپ کے لباس سے لپٹتے ہیں، سڑک پر جمع مٹی کے ڈھیر آنکھوں میں گھسے چلے جاتے ہیں اور آپ بے بسی کے عالم میں خود کو گھونٹ کر رہ جاتے ہیں!
اس ملک کا وہ کون سا شہر ہے کہ جہاں معاشی اورصنعتی سرگرمیوں کی وجہ سے بھی اس شہر کا ماحول برباد اور وسائل تہ وبالا ہیں، جس کے نتیجے میں یہ ریاست اور اس کے رکھوالے تو خوب اچھی طرح پل رہے ہیں، لیکن اس کے صلے میں اس شہر کے باسیوں کی زندگی مختلف بیماریوں میں گزر رہی ہے اور شاید کسی کو اس المیے کا احساس بھی نہیں ہے! شاید اسلام آباد والوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ کراچی کو صرف اتنا ہی سانس لینے دینا ہے کہ بس یہ زندہ رہ سکے تاکہ ہماری عیاشیوں اور لوٹا ماری کے لیے ٹیکس کما کما کر دیتا رہے!
٭ ہر دیوار بیت الخلا
کراچی میں اب یہ حال ہے کہ ہر سڑک کے کنارے اُکڑوں بیٹھے والوں کی ’باقیات‘ سڑک پر بہہ بہہ کر آرہی ہوتی ہیں اور پھر کسی تیز رفتار بائیک سے اس کی چھینٹیں اڑ کر آپ کے کپڑوں پر آتی ہیں! اور یہ بالکل کوئی لفاظی یا سنی سنائی بات نہیں ہے، بلکہ ہمارے عملی تجربے اور مشاہدے کی بات ہے! اس پر بھی بس نہیں ہوتا، یہ ’کارنامے‘ دکھانے والا اٹھتا ہے اور اپنا دامن کاندھے پر اُلٹائے اپنا ست رنگی ’کمربند‘ لپیٹتے ہوئے آپ کو بتاتا ہے کہ اس کا گاﺅں کتنا حسین وجمیل ہے، وہاں ہر طرف کتنا سبزہ اور ہریالی ہے اور مزید یہ کہ وہاں کی فضا کتنی صاف اور چیزیں کتنی سُتھری ہیں!
اور ابھی یہ ظلم اور جبر کی کہانی مکمل نہیں ہوئی، ایسا بھیانک جبر اور بے بسی تو بدترین سامراجی دور میں جینے والی کسی غلام قوم کے ساتھ بھی کبھی نہ ہوئی ہوگی، جو ہم کراچی والوں کے ساتھ اس وقت بیت رہا ہے!
٭٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *