(تحریر: رضوان طاہر مبین)
میں آصفہ زرداری…! میں آج کل پاکستان کی ‘خاتونِ اول’ ہوں
میرے نانا ذوالفقار بھٹو پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کی کابینہ میں وزیر خارجہ بنے، پھر 1971 کے بعد ملک کے پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے، اس کے بعد صدر اور وزیراعظم رہے،
میری والدہ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم بنیں،
میرے والد آصف زرداری ان دنوں دوسری مرتبہ صدر مملکت بنے ہوئے ہیں،
میرے بھائی بلاول زرداری بھی میرے نانا ذوالفقار بھٹو کی طرح سابق وزیر خارجہ ہیں،
میری والدہ بے نظیر کے قتل کے بعد 2008 میں میری پھوپھی فریال تالپور دو مرتبہ رکن قومی اسبملی بنیں، یعنی 2018 تلک، اس کے بعد اب وہ پیپلزپارٹی کی خواتین ونگ کی صدر بن گئی ہیں!
بالکل ایسے ہی میری دوسری پھوپھی عذرا فضل پیچوہو بھی بے نظیر کے قتل کے بعد نمایاں ہوئیں، رکن قومی اسمبلی تو 2002 میں تھیں، پھر 2018 میں قومی اسمبلی سے صوبائی اسمبلی آگئیں اور پھر 5 برس صوبائی وزیر صحت بھی رہیں،
میری والدہ بے نظیر بھٹو نے بالکل درست ہی کہا تھا:
“جمہوریت بہترین انتقام ہے!”
دیکھ لیجیے دادا تو فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار بھٹو جونیر کے بھی پھانسی چڑھائے گئے تھے، اگر میری والدہ قتل ہوئیں تو ان کے والد مرتضیٰ بھٹو کو تو ان کی سگی بہن بے نظیر کے وزیراعظم ہوتے ہوئے پولیس نے گولیاں مار دی تھیں، لیکن اقتدار کا ہما ہمیشہ ہی ہمارے سر بیٹھا!
اب یہ تو سارے نصیب کے کھیل ہیں کہ بادشاہت کے اصول کے تحت بھی مسند اقتدار انھیں ملنی چاہیے تھی، لیکن ہم ‘زرداری’ ہو کر بھی “بھٹو +زرداری” بن گئے اور اس طرح دیکھ لیجیے کہ آج بے نظیر کے سسرال تک کے وارے نیارے ہیں، دوسری طرف وہ ‘اصلی بھٹو’ ہو کر بھی یک سر خالی ہاتھ ہیں… بالکل ایسے ہی جیسے میری اس بہترین گاڑی کے شیشے کے پیچھے دکھائی دینے والے سندھ کے عوام!
جیے بھٹو…!
یہ تو نصیب کی بات ہے!
