تحریر : ڈاکٹر شاہد ناصر
اسلامی دنیا میں یوں تو بہت سے ممالک قیادت کے لیے گنے جاتے ہیں، جن میں پاکستان، سعودی عرب، ترکی، ملائیشیا اور ایران کا نام تواتر سے لیا جاتا رہا ہے، لیکن کبھی آپ نے قطر کا نام نہیں سنا ہوگا، لیکن یہ سعودی عرب کے بازو میں واحد خشکی کے راستے کے طور پر جڑا ہوا جزیرہ نما ملک ان تمام ممالک سے زیادہ قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے، اگر امریکی فوج کی افغانستان سے انخلا کی بات کی جائے تو قطر نے بہت خاموشی کے ساتھ ایک کلیدی کردار ادا کیا، یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان نے بھی قطر پر بھروسا کیا اور ساتھ ہی امریکا کو بھی اسی میں سہولت محسوس ہوئی، پاکستان بھی یہ کردار ادا کرسکتا تھا، لیکن ایک اہم ہم سائے اور قطر سے زیادہ افغانستان اور امریکا سے تعلقات اور قربت کے باوجود یہ موقع ہمیں نہ مل سکا۔ اگرچہ پاکستان بھی اس کا حصہ بنا، یوں یہ معاہدہ 2020 میں قطر کے دارالحکومت دوحا میں طے پایا۔
اس کے بعد شام میں جاری خانہ جنگی ہو یا یمن کے معاملات ہوں، قطر نے ایک پروقار اور بردبار کردار ادا کیا ہے، جس میں مسلم دنیا کے لیے اس کی جاں نثاری عیاں نظر آتی ہے، اس کے اس خاموش اور فعال ترین کردار کے سبب جزیرہ نما ریست کے خشکی کے واحد پڑوسی سعودی عرب سے شدید پرخاش ہوئی، تعلقات منقطع ہوئے یہاں تک کہ ایک منصوبہ سامنے آیا جس کے تحت قطر کا خشکی کا راستی منقطع کرنے کا سوچا گیا، مگر پھر سعودی عرب نے نظرثانی کی اور دونوں ممالک کے تعلقات بحال ہوئے، کیوں کہ قطر سعودی عرب کی ہدایت کے بہ جائے اپنی آزاد حکمت عملی رکھتا تھا، یہی وجہ ہے سعودی ایران کشیدگی کے باوجود قطر نے ایران سے بنائے رکھی، اور تو اور جب متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے سعودی بغل بچہ ممالک اسرائیل کو تسلیم کرگئے، تب بھی قطر وہ ملک قرار پایا ہے کہ جس نے حماس کی قیادت کو اپنے ہاں ٹھیرایا بلکہ اسرائیل سے بھی اتنے تعلقات بنائے کہ وہ اس کے لیے فلسطینیوں کے لیے کچھ حاصل کرسکے، (واضح رہے کہ حماس کے راہ نما اسمعیل ہانیہ بھی قطر میں تھے، جو ایران گئے اور وہاں قتل کردیے گئے) پھر امریکا کو بھی شیشے میں اتارا اور افغانستان کے معاہدے کی طرح 15 جنوری 2025 کو سوا سال سے جاری غزہ کی جنگ کو بند کروانے میں کام یابی حاصل کرلی، باقی نام نہاد بڑے بڑے مسلمان قائدین وہ کردار ادا نہ کرسکے۔
آج شاید آپ قطر کے امیر یا وزیراعظم کا نام بھی نہ جانتے ہوں، لیکن کل قطری وزیراعظم محمد بن عبدالرحمن کے جنگ بندی کے اعلان کے بعد ہم سوچنے پر مجبور ہیں کہ پے در پے فعال کردار کے باعث ایک چھوٹے سے اور پس منظر میں رہنے والے مسلمان ملک قطر کا پوری مسلم دنیا میں کوئی بھی ثانی دکھائی نہیں دیتا۔
یہی وہ ملک ہے جس نے فیفا ورلڈ کپ منعقد کرنے کے باوجود اپنی مسلم اقدار پر سمجھوتا نہیں کیا، “الجزیرہ” جیسے ٹی وی کو قائم کرکے ذرائع ابلاغ کی دنیا میں بھی ایک انقلاب برپا کیا اور کسی نہ کسی سطح پر مسلمانوں کے وقار کو بچانے کی کوشش کی۔
غزہ جنگ بندی معاہدہ، قطر نے خود کو پھر اہل ثابت کردیا
