Categories
Interesting Facts Rizwan Tahir Mubeen Society دل چسپ رضوان طاہر مبین

کل ہمارے ’واٹس ایپ‘ کا عجب حادثہ ہوا!

(تحریر: رضوان طاہر مبین)
نہ جانے کل رات اچانک کس طرح ’واٹس ایپ‘ نے ایک انگڑائی لی اور از خود ٹھیر ٹھیر سا گیا اور مزید چلنے سے پہلے اس نے ہمارا موبائل نمبر طلب کیا، ہم نے دے دیا، تو دوبارہ نئے سرے سے واٹس ایپ جڑا اور ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ اب ’واٹس ایپ‘ کی پچھلی کوئی گفتگو موجود نہیں ہوگی۔ یہ امر ہمارے لیے نہایت دھچکے کا باعث رہا کہ ہم تو اپنی دانست میں واٹس ایپ ’بیک اَپ‘ محفوظ سمجھتے تھے! وہ تو شکر ہے کہ ہم واٹس ایپ پر جن گروپوں میں شامل تھے، ان سے اخراج نہیں ہوا، لیکن یہ ضرور ہوا کہ ہمیں واٹس ایپ سے جڑے ہوئے کوئی ساڑھے پانچ برس ہوئے، اس دوران ایک مرتبہ بھی واٹس ایپ مکمل طور پر صاف نہیں کیا تھا، کیوں کہ بوجوہ بہت سی چیزیں یاد بھی تو رکھنی ہوتی ہیں، بہت سی باتیں چاہتے ہوئے بھی مٹائی نہیں جاتیں، جیسی عملی زندگی میں کاغذ کے ضروری اور غیر ضروری رقعے، خطوط، رسیدیں اور چٹھیاں ہم سے تلف نہیں کی جاتیں، تو کچھ یہی حساب ہمارے واٹس ایپ میں بھی رہا۔ یہ نہیں تھا کہ ساڑھے پانچ سال سے سبھی کچھ محفوظ رکھا ہوا تھا، جگہ گھیرنے والی اکثر چیزیں ہم حذف کر دیتے، کئی بار فون نے جگہ کی تنگی کی دہائی دی تو بہت سے احباب سے گفتگو کے پورے پورے سلسلے مٹاتے بھی رہے، لیکن ایک بہت بڑی تعداد تھی، جو اس کے باوجود باقی رہی جا رہی تھی۔
اور اب حادثے کے بعد عالَم یہ تھا کہ صرف ’واٹس ایپ’ گروپ کے کورے خانے دکھائی دیتے تھے، سو انکشاف ہوا کہ ہم نہ، نہ کرتے ہوئے بھی 56 گروپوں میں شامل ہیں، ان میں کچھ اپنے ضروری گروپ بھی ہیں، شکر یہ ہوا کہ جن کرم فرماﺅں کو ’بلاک‘ کیا ہوا تھا، وہ 28 نمبر بدستور بلاک تھے۔ باقی کوئی درجنوں لوگوں سے گفتگو تھی، جسے کسی نہ کسی وجہ سے ہم نے ابھی تک ڈیلیٹ نہیں کیا تھا، آج وہ سب کسی حرف غلط کی طرح مٹ گئی تھی۔
کہیں کسی کے دعوے اور کسی کے وعدے یاد رکھنے کو تو کہیں کسی کی دُہائی تو کبھی کسی کو دُہائی، یہاں ایک عرصے سے محفوظ رکھی ہوئی تھی۔ کہیں غلطیاں، کہیں احساس، کہیں نفرت اور کہیں کچھ اظہار سنبھالے رکھا تھا۔
کچھ لوگوں کے آخری پیغامات تھے، جنھیں مٹانے کے لیے طبیعت مائل نہ ہوتی تھی، بہت سوں کی ’شروع کی‘ باتیں تھیں، جو اب بہت حیران کرتی تھیں۔ کچھ سنگ میل سے تھے تو کچھ گویا پورے زمانے کچھ تاریخیں، کچھ رابطے، کچھ فاصلے، کچھ ضابطے، کچھ خسارے، کچھ تبدیلیاں اور کچھ اہم گوشوارے۔
کس نے کب کیا بات کی تھی، کیا بات نہیں کی تھی، کس بات کا جواب نہیں دیا، یا کیسے دیا، یہ سب یاد رکھنا ہر بار اتنا غیر ضروری بھی تو نہیں ہوتا، اس لیے محفوظ تھا، بہت سی کام کی گفتگو بھی کسی حوالے اور کسی ثبوت کے موافق جمع کر رکھی تھی، آج ان سب کا حادثاتی کام تمام ہوگیا۔
بہت سے گروپوں میں کچھ نمبر تھے، جنھیں اچھے خاصے ’بلاوجہ‘ میں کہیں لکھ کر رکھنا تھا، آج وہ کسی حرف غلط کی طرح مٹ گئے۔ بہت سوں سے گفتگو میں بہت کام کی چیزیں، کام کی باتیں، اور کسی کے ضروری رابطہ نمبر جوں کے توں تھے، انھیں اپنے پاس کہیں اور رقم کرنے کا وقت ہی میسر نہ ہوا تھا کہ وہ بھی آج ہاتھ سے نکل گئے۔
بہت سی اہم اہم باتیں، جو خود کو بھیج کر بھی تو سنبھالی ہوئی تھیں، یہ سب اتنا غیر ضروری بھی تو نہیں تھا، بلکہ کچھ ماہ سے موبائل کے کسی مسئلے کی وجہ سے پورے موبائل کو از سرنو خالی کرنا بھی مقصود تھا، لیکن اس وجہ سے ’واٹس ایپ‘ کی ساری باتیں اڑ جائیں گی، سوچ کر رکا رہا۔
بہت سے دوست تھے، (جو کبھی دوست رہے) ان کی باتوں کی تو بہت لمبی سی لڑی تھی۔ کبھی خود کلامی کرتے ہوئے، محاسبے کی خاطر، اپنے آپ کو پہچاننے کے لیے اور اپنے من کو ٹٹولتے ہوئے انھیں دوبارہ دوبارہ پڑھا تھا۔ اگرچہ جگہ گھیرنے والے ’وائس نوٹ‘ بہت سارے اڑاتے بھی رہے، لیکن اس کے باوجود کتنی ہی ’قیمتی‘ آوازیں اس میں تھیں، کتنے ہی وقت بہت یاد گار تھے، کتنے ہی جذبات جو کسی طور ہاتھ سے چھوٹتے نہ تھے، آج وہ سب ہماری مرضی کے بغیر چُھوٹتے چلے گئے۔ کتنی ساری کالوں کا بھی تو ایک ریکارڈ تھا ناں، کب کب کس کس نے فون کیا، کس کو کو فون کیا وغیرہ وغیرہ، سب کچھ مٹ گیا۔ ابھی ابھی تو ’عید مبارک‘ کا بھی تو ایک ”حادثہ“ ہوا تھا، ایسے کتنے بہت سے سندیس تھے، بہت سے تو جواب دیے جانے بھی باقی تھے، اب ہمیشہ کے لیے رہ گئے، اور بہت سے خانے تھے، جو تہوار پر جاگنے چاہیے تھے، وہ سارے نشان اب حذف ہو کر رہ گئے!
اب ہم سوچتے ہیں تو شاید ہمیں دانستہ طور پر ایسا کرنے کے لیے بہت سوچنا پڑتا، جو آج ایک حادثے کی صورت میں رونما ہوگیا۔ ہمیں یاد آتا ہے کہ اس واقعے سے کچھ ہی دیر پہلے حسب روایت ہمیں ایک اور شدید الجھن درپیش ہوگئی تھی، اس کے حل کی ’قانونی‘ راہ بھی سُوجھی، لیکن اس سے پہلے ایسی ہی ایک ’درخواست‘ کا حشر، لوگوں کے رویے اور اس کا پورا نتیجہ یاد آیا تو بے سارے وجود میں ایک بسی پھیل گئی اور اگلے لمحے مایوسی نے جکڑ لیا، تب اندرسے ایک آواز آئی تھی کہ ”رضوان صاحب! آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے!“ آپ کا یہ سماج بھی بہت بگڑے گا، آپ کی برادری، آپ کی گلی، آپ کا آبائی محلہ، آپ کا شہر، آپ کی قوم، یہ سب بہت تیزی سے تباہی اور بربادیوں کے راستے پر گام زن ہیں۔ آپ اس ’غول پسند‘ معاشرے میں بالکل تنہا ہی رہیں گے، آپ ذرا سی بھی دو نمبری کر نہیں سکتے، بلاوجہ میں حق کے تیر اپنے کلیجے میں گھونپنے اور سچ بولنے سے باز نہیں رہ سکتے، اصولوں پر چلنے کا بہت کیڑا کاٹتا ہے، سو آپ کو یہ سب تو دیکھنا ہی پڑے گا۔
اب یہ آپ کی صوابدید ہے کہ آپ اس کے واسطے اپنے ہلکان کلیجے کو اور سُلگاتے چلے جائیے یا پھر اب ہتھیار ڈال دیجیے، شکست تسلیم کرلیجیے اور اپنا کردار ضرور ادا کیجیے، لیکن نتائج کی قطعی پروا نہ کیجیے کہ شاید اب آپ اپنے شہر، اپنی گلی، اپنے محلے اور اپنی قوم کا صرف نوحہ لکھنے کا کردار نبھانے کے لیے زندہ ہیں۔ کیوں کہ اس وقت سب کو مفادات ہیں۔ صرف دھن دولت کا حصول اور روپیا پیسہ ہی سب کچھ ہے! اب یہاں کچھ بھی بہتری اور کوئی بھی اچھی تبدیلی ممکن نظر نہیں آتی۔ صرف دو نمبری کا راج ہے، اس لیے آپ جیسے ’اچھوت‘ کا ساتھ دینے کے لیے یہاں کوئی تیار نہیں۔ آپ کی اپنی زندگی کے مسئلے مسائل کیا کم ہیں، سو بس اب انتخاب آپ کا ہے کہ اپنی اذیت کو کم کر سکتے ہیں یا اب بھی ایسے ہی دوسروں کے واسطے جل جل کر مرتے رہیں گے۔ یوں اِس واٹس ایپ حادثے سے پہلے بہت مضبوطی سے ’بے حسی‘ کا ایک لبادہ اپنے اوپر طاری کیا تھا، بہتری کی کوئی بھی امید چھوڑ دی تھی کہ اب یہی ممکن ہے کہ بس اپنے گھر کی دیوار اونچی کرلیجیے، اپنے پائنچے چڑھا لیجیے، یہ سب کچھ تہہ وبالا اور خراب ہوگا اور سب آپ کے سامنے ’نامی گرامی‘ لوگ بھی کریں گے، آپ کی صدائیں نقار خانے میں طوطی کی آواز بنیں گی۔ ہم اس کے لیے اس وقت کچھ آمادہ تھے، اور اس کے کچھ ہی دیر بعد یہ عجب اتفاق ہوا کہ آگے بڑھنے کی ایک گویا ایک سبیل سی ہوگئی کہ ساڑھے پانچ سال کے ضروری اور غیر ضروری گفتگوئیں کسی حرف غلط کی طرح مٹ گئیں۔ بہت سی اہم چیزیں بھی جو ہم بار بار واٹس ایپ کھول کر دیکھ لیتے، یاد کرلیتے کہ یہ فلاں سے بات فلاں دن کی، فلاں جواب ملا وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ بالکل نہیں ہوگا، بہت سے رابطے بھی ہمیشہ کے لیے منقطع ہوگئے! یوں بھی بحال تھے بھی کس سے؟ بہت سے جذبات اور احساسات پھسل گئے، لیکن شاید یہ بھی ضروری ہی ہوگا، سو ہو گیا۔ لیکن تھا حادثہ، سو ہم پر حادثے کی طرح ہی گزر گیا، یعنی یہ تو یاد تھا کہ کیا کیا چلا گیا اور بہت کچھ ایسا بھی ہوگا کہ جو یاد بھی نہیں اور وہ بھی اب تلف ہوگیا، یہی زندگی ہے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights