Categories
Karachi Rizwan Tahir Mubeen Society تہذیب وثقافت دل چسپ رضوان طاہر مبین سمے وار بلاگ کراچی

ہماری گلی کہاں لاپتا ہوئی؟

(تحریر: رضوان طاہر مبین)
ہماری کالونی میں مغرب سے مشرق کے سمت چلتے چلے آئیے،
سیدھی سیدھی ترتیب کے ساتھ یہ گلی نمبر چھے قرار پاتی ہے!
عرفِ عام میں ’چَھٹی لائن!“
”نہیں، نہیں یہ وہ گلی تو نہیں ہے“
”ذرا غور سے دیکھیے، وہ بالکل سامنے نیلے رنگ کا پرانا گیراج تو آج بھی موجود ہے، اور اس گیراج کے ایک منزلہ گھر کی دیواروں کا رنگ آج بھی اُسی طرح زرد ہے دیکھیے، یہی، تو وہ اچار کے کارخانے والی گلی ہے اور یہ دیکھیے اپنی ’مَسیت‘ والی خالہ کا گھر، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تب سے آج تک اس گھر پر بھی گزرے زمانے کا بہت اثر پڑا اور یہ بھی اب بہت ضعیف ہونے لگا ہے“
”بات تو صحیح ہے، اس گلی میں رُبع صدی کے بعد آج بھی کم از کم یہ دو پرانی نشانیاں تو جوں کی توں ہیں“
اس گلی سے چند منٹ کی مسافت کی دوری رکھنے کے باوجود، جب بھی ہم اس گلی سے گزرتے ہیں، مو¿دب ہو جاتے ہیں ہمارے سینے سے ایک گہرا سانس آزاد ہوتا ہے اور ہم خود کلامی کرتے گزرے جاتے ہیں، کئی جگہوں پر توقف کرتے ہیں، کئی خیالات تیزی سے ہمارے ذہن کے پردے پر کوندتے ہیں، کبھی دل پسیج جاتا ہے، قدم بھاری ہوئے جاتے ہیں، اور کبھی کبھی پلکیں بھی بھیگی جاتی ہیں۔
ثبات ایک تغیر زمانے کو ہے!
یہ گلی۔ یہاں ہم نہیں رہے، تو دیکھیے اور لوگ بھی تو نہیں رہے، نئی عمارتیں، نئے مکین، نئے رنگ، نئے ڈھنگ۔ وہ نہایت کھلی اور کشادہ گلی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آج کل کے ہمارے دلوں کی طرح اس قدر تنگ ہوگئی ہے کہ اب تو سوچ کر بھی الجھن ہوتی ہے۔ بھلا یہی گلی تھی، جس میں گلی تو گلی محلے بھر کے لڑکے بھی آکر کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ اس گلی کی شامیں بچوں کے شور سے خوب آباد ہوا کرتی تھیں، تب وقت بھی تو کتنا زیادہ ہوتا تھا۔ سہ پہر سے سورج ڈھلنے تلک کا وقت یہاں پوری ایک زندگی کے برابر جیا جاتا تھا۔ کوئی ہنستا تھا، کوئی ہنساتا تھا، کوئی مستیاں کرتا، تو کوئی شرارت سے باز نہ رہ پاتا، کبھی کوئی لڑکا بالا شرارت کی حدیں پھاندنے کی کوشش بھی کر لیتا تھا، لیکن صاحب، کیسا نظم تھا، ہر گھر گویا ایک ’چوکی‘ تھی اور اس ’چوکی‘ کا ہر فرد اپنی گلی کا نگہ بان اور اور اپنے محلے کا پہرے دار
خبردار، جو کسی نے اس حد سے گرنے کی کوشش کی، اور جو نادانی میں آگے بڑھ جاتے تھے، وہ بھی تو سب سے بچ بچا کر رہتے تھے، کسی نے دھواں منہ سے لگا لیا ہے، تو وہ کئی گلیوں دور سے یہاں آکر ’چُھپا چُھپا‘ پھرتا ہے، لیکن ہے تو بچہ ہی، اسے اندازہ نہیں کہ ’محلے دار‘ اپنی کالونی کے ہر لڑکے کو چہرے کے نقوش سے نہ صرف پہچان لیتے ہیں، بلکہ بعضے تو اِس کا پورا شجرہ بھی ایک ہی سانس میں بیان کیے دیتے ہیں۔ اس لیے ان بگڑے لَمڈوںکے بگاڑ میں بھی کیا تہذیب اور کیا ادا ہوتی تھی۔ مجال ہے کہ کسی روک ٹوک کرنے والے کو نگاہ اٹھا کر بھی دیکھ لیں، کیوںکہ تب تو یہ بڑوں کا حق تھا کہ وہ ایک آدھ چَپت بھی رسید کر دیا کرتے تھے اور پھر ’ملزم‘ کے شرمندہ شرمندہ گھر والے بھی آکر کہتے تھے بھائی، دو، تین اور لگا دیے ہوتے!
مگر یہ اب ہم کہاں کھو گئے؟
اس گلی میں تو یہی کُل کوئی دو تین گاڑیاں اور آٹھ دس اسکوٹریں ہوا کرتی تھیں، اب دیکھیے تو قطار اندرقطار اسکوٹریں یوں جمی ہوئی ہیں کہ تنگ گلی اور تنگ ہوئی جاتی ہے۔ وہ جہاں صرف بس ہمارے، تمھارے گھر ہی تھے، وہ گھر جن کے دروازے سارا سارا دن کھلے رہتے تھے، بچے تو بچے، پردے دار بیبیاں بھی بے دھڑک سر پر ددوپٹا رکھ کر چلی چلی جاتیں۔ یہ گلی کوئی پرائی تو تھی نہیں، غیر تھا ہی کون؟ سبھی تو اپنے تھے، ہر ایک کی نگاہ میں حَیا اور طبعیتوں میں خوب لحاظ تھا۔
اب تو صرف یہ ساری یادیں ہی ہیں، جو بے دھڑک چلی چلی آتی ہیں۔
”اب وہ گلی کہاں گئی؟“
ہم نے خود سے سوال کیا، تو گویا گلی کے کسی کونے سے آواز آئی کہ ’شکوہ صرف گلی ہی سے کیوں؟ اس کے مکین بھی تو اس سے وفا نہ کر سکے، تو گلی کوئی زمین کے ٹکڑے کا نام تو ہے نہیں کہ خود سے بری یا بھلی ہو جائے۔
ذرا دیکھو تو اپنے گھرکی طرف، کیسا اتفاق ہے کہ اس جگہ عمارت بھی برابر کے پُھوپھو کے جڑواں گھر کے ساتھ بنائی گئی ہے، جیسے ہمارے وہ دو گھر ایک دوسرے سے متصل تھے، آج بھی یہ ایک عمارت کی صورت میں یک جا ہیں۔ درمیان میں سیڑھیاں رکھی گئی ہیں۔ ہم نے چشم تصور سے اس جگہ اپنا گھر دیکھا اور اندازہ کیا کہ ڈیوڑھی کا راستہ کہاں رہا ہوگا اور پھر ایک لمحے کے لیے سوچا کہ یہاں سے گلی کے نکڑ کی سمت دیکھیے اور اگر نگاہ اور درمیانی رکاوٹیں اجازت دیں، تو سیدھا ہی سیدھا گلی دیکھتے چلے جائیے کہ بالکل سامنے پرانے شکیل ہوٹل کے برابر کی دکان صاف دکھائی دیتی تھی، جہاں کچھ وقت کے لیے ’المدینہ بیکری‘ بھی کھلی تھی اور اب کافی عرصے سے ’اسحق ملک شاپ‘ قائم ہے۔
اور ہمارے گھر کے بالکل سامنے بھائی کامل شمسی کے گھر کا پچھلا حصہ ہوتا تھا، جہاں ان کی مہمان گاہ کا دروازہ شاذونادر کسی خاص موقعے پر مہمانوں کے واسطے ہی کھلا کرتا تھا۔ گلی کی سمت ان کے گھر کی کھڑکیاں ضرور تھیں، جس کی مَہین جالیوں کے عقب میں سے ہمیں کچھ دکھائی نہ دیتا تھا اور یہیں سے جب بچے گلی میں زیادہ ہلا گُلا کرنے لگتے تھے تو اللہ بخشے بھائی کامل کی ایک کرخت دار آواز آتی اور لمحہ نہیں لگتا تھا کہ سارے لڑکے دوڑ کر دائیں بائیں ہو جاتے تھے۔ اندازہ لگائیے کہ صرف جالیوں کے عقب سے ان کی برہمی کا ہم بچوں پر اتنا رعب ہوتا تھا، آج کل کے ایسے بچوں کو کھڑکی سے کہہ بھی دیجیے تو پلٹ کر جواب دیں گے اور بھرم تو دور کی بات، آپ کی بات کا کچھ اثر بھی نہ ہوگا، جب کہ اس وقت احترام یا بڑائی کا یہ عالم ہوتا تھا۔
’اب تو بھائی کامل شمسی کا بھرا پُرا پررونق گھر بھی قصہ¿ پارینہ ہوا، لیجیے یہاں بھی یہ اونچی عمارت سر اٹھائے کھڑی ہے، بلکہ دو، تین پرانے اور غیر آباد گھروں کو چھوڑ کر ہر جگہ ہی اب عمارتیں ہی بن چکی ہیں، اس گلی کے آخری تنگ حصے (اچار والوں کی گلی) کے پار پرانا ’ریس کورس‘ نہ ہوتا تو شاید گھٹن اور بھی سوا ہوتی اچار والوں کی گلی کے کونے سے مغرب کے رخ دیکھیے تو ایک لمبا راستہ، جہاں نگاہ پانچ گلیوں پار ، زیرو لائن کو نکلتی ہوئی ’سقے والی گلی‘ پر جاکر ٹھیرتی ہے، کوئی بھی آتا جاتا ہو، یہاں سے دیکھ لیجیے، بہت دور سے دکھائی دے جائے گا۔ اور یہی نہیں جب آپ اس رخ پر کھڑے ہوں گے، تو خوش گوار ہوا ضرور آپ کے کان میں سرگوشی کرے گی۔ شاید آج بھی ایسا ہی ہو، لیکن اب وہ وقت کہاں، اور وہ لوگ کدھر رہے؟ اور نہ ہی وہ بے فکری کے دن، جب پڑھائی سے فرصت کے لمحوں میں انھی رہ گزر میں سارے وقت بیتا کرتے تھے۔
تھوڑا سا آگے بڑھیے، تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم ہی نہیں، یہ ہماری گلیوں میں قابض اجنبی اور کثیر المنزلہ عمارتیں بھی ہمیں بے گانگی سے تکتی ہیں، کہ یہاں کے نامانوس مکین بھی اب بھانت بھانت کے ہیں، جنھیں کیا خبر ان گلیوں کے نیچے ہماری یادوں اور پرکھوں سے وابستگیوں کے اور یادوں کے کتنے زمانے دفن ہیں۔
یہ گلی اب کیسے وہ گلی ہو سکتی ہے کہ جہاں ہم نے اپنی عمر کے قیمتی ترین کچھ برس گزارے، اس میں سوائے اس کے کوئی خوبی نہیں کہ یہ زمین وہ زمین ہے، وہ رہ گزر ہے، باقی نہ مکان وہ رہے اور نہ ہی مکین! ہم سوچتے ہیں کہ اگر ہم اس گلی سے کُوچ نہ کیے ہوتے تو کیا فقط ہمارے ٹھیر جانے سے یہ گلی ویسی رہ سکتی تھی؟ بالکل بھی نہیں، ہمارے رکنے سے وقت تو نہیں رک جاتا، دنیا سے جانے والے بھی جاتے چلے گئے اور یہاں رہنے والوں نے بھی نقل مکانی جاری رکھی، گویا اب بہت وقت بیتا، کوئی دو چار برس کی بات نہیں!‘
وہ گلی جہاں فقط ہمی نہیں رہے، بلکہ ہمارے آبا و اجداد کا بسیرا بھی رہا، یہاں 15 برس کے قریب ہمارے دادا نے بِتائے، تو دادی نے بھی 35 برس نذر کیے، ابو نے یہیں ہوش سنبھالا اور اپنا پورا بچپن اور جوانی اسی گھر میں گزاری، ہماری امّی اسی گھر میں بیاہ کر آئیں، ہم سب بہن بھائیوں کی پیدائش، ابتدائی تعلیم، کھیل کود سے لے کر ذاتی اور خاندانی زندگی کے کتنے ہی نشیب وفراز اسی گلی اور رہ گزر میں محفوظ ہوئے۔ اسکول کے بعد لفظ ’دوست‘ سے آشنائی بھی تو اسی گلی میں ہوئی، کبھی ہنسے بھی تو کبھی روئے بھی یہیں
بے فکر زندگی کے صدیوں جتنے طویل لمحے یہیں تو گزرے۔ ہفتہ وار تعطیلات کی حسین ترین صبحیں، پرسکون دوپہریں اور رونقوں سے بھری شامیں سارے تیوہار اسی گلی میں رہتے ہوئے ہی تو منائے۔ زندگی جینے کی نت نئی وجہیں تلاش کیں، خوشیاں کاشت کیں اور مسرتوں کا ثمر پایا، ہوش بھی ہیں سنبھلا تو ناسمجھی کی عمر بھی بچپن کی حدوں کو یہیں پہنچی مستقبل اور آنے والے کل کے خوف اور اندیشوں سے بے نیاز سارے سَمے ہی یہیں گزارے۔ ساونوں کی گھنگھور گھٹا سے خوف زدہ بھی بُہتیرے ہوئے، ٹپکتے ہوئے گھر کی ’کٹھنائی‘ بھی یہیں گزری، لیکن آج کی زندگی کے آلام کے آگے اس ٹپکتی ہوئی چھت، اور خستہ درو دیوار کا بھلا کیا مقابلہ!
تب بارش کی تیزی سے ہماری پلکوں سے بھی جَھرنے بہہ نکلتے تھے اور راتوں کو لائٹ نہ ہونا ’ہوا خوری‘ کے لیے گلی میں نکل آنے کا ایک بہانہ ہو جایا کرتا تھا، چاہے رات کا نصف پہر ہی کیوں نہ بیت گیا ہوتا، ہم سب بچے گلی میں آ جاتے تھے۔ بجلی نہ ہونا ہمارے کھیلنے کا ایک حِیلہ ہو جاتا تھا۔ بچیاں بھی ہم سائے کے گھروں کی لڑکیوں سے جا ملتی تھیں، کبھی تو گرمی کے ستائے بڑے بھی گھروں سے نکل کر ٹولیاں بنا کر باہر مل بیٹھ جاتے تھے، معلوم بھی نہ ہوتا کہ یہ آدھی رات ہے۔
بچے اگر کھیل نہ بھی رہے ہوتے، تو ہم جولیوں کے ساتھ ہنسی مذاق اور گپے ہانکنے کا ایک موقع تو ہو ہی جاتا تھا، کبھی کسی کھیل کی ’طرح‘ ڈال دی جاتی تھی، ایک آدھا گھر کے جنریٹر کے وسیلے گلی کی گہری تاریکی جاتی رہتی۔ گرمیوں کی رات میں بھی باہر ایک فرحت کا احساس ہوتا تھا۔ ہمارا جی چاہتا تھا کہ اب رات بھر بجلی بند رہے، تاکہ ہمیں اور دیر تک گھر سے باہر اپنے جھمیلوں کے لیے وقت میسر رہے۔
آج کہاں ہے وہ سب؟ یہاں کی نامانوس در ویواروں کے ساتھ زندگی کرنے والے بھی ایک دوسرے ناواقف ہیں۔
نہیں یہ گلی، اب وہ گلی نہیں! یہاں اب تو نہ راتیں وہ راتیں ہیں، نہ دن وہ دن۔ کہ جب دھوپ کے وقت دھوپ بے کراں ہوتی تھی اور شام کے وقت ہوا بے حساب۔ اب تو گلی کا آسماں بھی ان عمارتوں کی ’سَنگینوں‘ پر اٹھا اٹھا بہت پرے کر دیا ہے، سو کہاں وہ دن رات کے حساب اور دن کے اترنے چڑھنے کا احساس
آج بھی اگر کسی کو وقت ملے تو وہ پرانے گھر، پرانے محلے اور پرانی گلیوں سے گزرتا ہے اور گئے وقت کو محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن ہم تو کھوجتے ہیں کہ وہ سب کچھ کہاں چلا گیا، کیا ہماری عمر اور زمانہ اتنا تیز رفتار ہے کہ سبھی کچھ تلپٹ کرتا ہوا آگے چلتا چلا جا رہا ہے۔ ہماری ’کالونی‘ کی یہ گلی نمبر چھے یا ’چھَٹی لائن‘ ہماری ’چھُٹی لائن‘ بنی اور اب وقت کی گَرد تلے دفن ہو کر ’چُھپی لائن‘ بن گئی ہے۔
.
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights