Categories
Arsalan khan Exclusive Karachi انکشاف ایم کیو ایم قومی سیاست کراچی مہاجرقوم

ڈاکٹر خالد مقبول غیر آئینی مطالبہ کیسے کرسکتے ہیں؟

تحریر : ارسلان خان
آج کل پاکستان خاص کر کراچی میں ایک نیا ڈھنگ نیا رواج چل نکلا ہے، جسے دیکھیے “ریاست” کا نام لے کر عام لوگوں پر چڑھ دوڑنے کو تیار بیٹھا ہے۔ سوشل میڈیا ہو یا مین اسٹریم میڈیا، حکومتی عہدیدار ہوں یا سیاست دان، عوامی نمائندے ہوں یا سوشل میڈیا کے سیاسی کارکنان، جہاں دلیل ختم ہوجائے وہاں “ریاست” کے نام کا سہارا لے کر اپنے مخالف پر چڑھ دوڑنے کو ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم۔
بہرحال پچھلے چند دنوں سے کراچی کے سیاسی افق پر بڑی گہما گہمی دیکھنے کو مل رہی ہے ، ٹوئٹر ہو یا فیس بک یا یوٹیوب یا پھر بڑے ٹی وی چینل۔ ہر طرف ایک طوفان آیا ہوا ہے
جدھر دیکھیے ایک الگ ہی چرچا لگی ہوئی ہے، کراچی کی سیاست اچانک ایک رولر کوسٹر رائیڈ میں تبدیل ہوگئی ہے اور اس سب کی وجہ بنے وہ “درجن بھر لوگ”
میں نے جب ٹی وی پر یہ سب سنا تو سوچ میں پڑ گیا کہ اگر کُل ملا کر درجن بھر لوگ ہی تھے تو صرف کورنگی سے تین درجن لوگ کیوں گرفتار کیے گئے، پھر میں نے یہ بھی سوچا کہ وہ درجن بھر لوگ کون ہیں جن کی طرف خالد بھائی اشارہ کررہے ہیں۔ اس کے بعد میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ ان درجن بھر لوگوں سے ایسا کون سا جرم سرزد ہوگیا ہے جس کی وجہ سے خدا نخواستہ ریاست خطرے میں پڑ گئی ہو اور جس کی وجہ سے خود کو شہر کی نمائندہ جماعت کہنے والی ایم کیو ایم (بہادرآباد) کے سربراہ کو اپنے ہی شہریوں کے خلاف اداروں سے ایکشن لینے کی درخواست کرنی پڑگئی ہو ۔
میں نے پریس کانفرنس دوبارہ سنی اور پوری بات سمجھنے کی کوشش کی اور تھر سے کانپ کے رہ گیا۔
مجھے حیرت ہے کہ عرصہ دراز پارلیمینٹیرین رہنے والے آئینی و قانونی رموز و اوقاف سے واقف ڈاکٹر فاروق ستار کو بازو میں بیٹھا کر ڈاکٹر خالد مقبول نے اتنی غیر آئینی گفتگو کیسے فرما لی، مطلب قطعہ نظر اس کے کہ وہ درجن بھر لوگ کون تھے اور چاہے وہ جو کوئی بھی تھے وہ پاکستان کے شہری تھے، وہ کسی بھی شخص کے بارے میں جو چاہے رائے رکھیں۔ وہ جس نغمہ پر چاہے رقص کریں۔ وہ جس تنظیم کا چاہے جھنڈا اٹھائیں (سوائے اس کے کہ وہ تنظیم کالعدم نہ ہو) وہ جو چاہے نعرہ لگائیں (سوائے ملک یا آئین مخالف نعروں کے) یہ ان کا بنیادی شخصی حق ہے!!
مگر کسی بھی سیاسی لیڈر کا اس طرح ٹی وی پر بیٹھ کر اداروں کو شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے کی ماورائے آئین و قانون دعوت دینا کس قانون کے تحت جائز ہے ؟؟؟
ہم اس ملک کے شہری ہیں اور اس ملک کا آئین اور قانون ہمیں آزادی سے سوچنے کا بنیادی انسانی حق دیتا ہے۔۔ کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے کو ریاست کا نام لے کر ڈرائے اور اپنے بنیادی انسانی حقوق کے تحت کوئی عمل کرنے سے روکے ۔۔۔ ہاں جہاں کہیں کوئی قانون ٹوٹے تو ادارے حرکت میں ضرور آئیں اور قانون کیمطابق جو کارروائی بنتی ہے وہ ضرور کریں۔۔
آئین ریاست کا امام ہے، اس سے روگردانی نہ کوئی فرد کر سکتا ہے اور نہ ہی خود ریاست۔۔۔ لہٰذا ریاست کا نام لے کر داروں سے ماورائے آئین اقدامات کی توقع کوئی جمہوری رویہ نہیں!
الطاف حسین کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے درجن بھر لوگ نہیں ہیں یہ آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی۔ الطاف حسین پر پابندی غیر آئینی ہے یہ آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی۔ الطاف حسین کے حامیوں کا ان پر لگی پابندی کے خاتمہ کا مطالبہ سو فی صد آئینی ہے یہ آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی۔
اپنی سیاست کے لیے اداروں کو عام شہریوں کے سامنے لا کھڑا کرنا ناصرف غیر آئینی و غیر قانونی ہے بلکہ افسوس ناک بھی ہے۔ اور یہ آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی !!
آپ ہماری نمائندگی کے دعوے دار ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ آپ کو واپس عوام میں ہی آنا ہے۔ ہمیں ایسا لگتا تھا کہ آپ ہم میں سے ہی ہیں مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ آپ ہمارے اس اندیشے کو پوری شد و مد کے ساتھ رد کرتے چلے جارہے ہیں۔۔ ایسا مت کیجیے ریاست اور شہریوں کے بیچ فاصلے مت بڑھائیے۔
ریاست کا نام خوف کی نہیں، تحفظ کی علامت ہونا چاہیے جو کہ نہیں ہے اور یہ سب سے بڑا لمحہ فکریہ ہے!
یہ آپ بھی جانتے ہیں اور ہم سب بھی !!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights