تحریر :رضوان طاہر مبین
مزمل سہروردی اکثر کراچی کے سیاسی معاملات پر اظہار خیال کرتے ہیں، عام طور پر آپ کی نگاہ اور انداز منفرد اور خاصا حقیقت پسندانہ ہوتا ہے۔
18 جولائی 2023 کو روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والے کالم “کراچی کی سیاست میں ہلچل” جس کا لنک یہ ہے
https://www.express.pk/story/2512039/268/
میں منور سہروردی نے بہت سے ایسے بنیادی سوالات اٹھائے ہیں، جس کے جواب شاید ان کے علم میں نہیں، تو ہم نے سوچا کہ کیوں ناں اس حوالے سے کچھ بات کرلی جائے، تاکہ کراچی کی سیاست کے حوالے سے متوقع نقشہ سامنے آجائے۔
انھوں نے متوقع عام انتخابات میں کراچی کے سیاسی منظر نامے کی بات کی ہے اور یہ لکھا ہے کہ بانی ایم کیو ایم کی جماعت ہمیشہ ہی انتخابات کا بائیکاٹ کردیتی ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ایم کیو ایم لندن نے انتخابی عمل کا کبھی بے سبب بائیکاٹ نہیں کیا اور نہ ہی شاید آئندہ کرے گی، اس کی وجہ اس پر کڑی بندشیں ہیں، اس نے کسی اور نام سے بھی انتخاب لڑںے کی کوشش کی، تو اسے بھی ریاست نے کوئی گنجائش نہیں دی، پاکستان قومی موومنٹ کے اقبال کاظمی نے یہ کوشش کی کہ وہ لندن گروپ کو انتخابی سیاست میں جگہ دے سکیں، وہ بھی سخت عتاب کا شکار ہوگئے، پھر 2018 کے انتخابات سے پہلے ایم کیو ایم لندن سے وابستہ ذمہ دار ڈاکٹر حسن ظفر عارف ابراہیم حیدری میں پراسرار موت کا شکار ہوگئے، اور یہاں دیگر ارکان نظر بند اور اسیر ہوتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس کے امیدوار کاغذات نام زدگی تک داخل نہ کراسکیں تو اس کے پاس انتخابات کے بائیکاٹ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اور ریاست بھلا لوگوں کا انتخابات کا بائیکاٹ کیسے ناکام بنا سکتی ہے۔ کیا وہ جبراً لوگوں کو نکال کر ووٹ ڈلوائے گی؟ شاید یہ ممکن نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ ریاست تمام سیاسی قوتوں کو مساوی طور پر انتخابات لڑںے کا موقع دے اور پھر کراچی والے جو بھی فیصلہ کرے، اسے قبول کرے۔ یہی جمہوریت ہے۔
آپ کی ایم کیو ایم لندن کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کا کام آسان کرنے کی بات ممکن ہے درست ہو، لیکن دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بھی یہی چاہتی ہے کہ الطاف حسین سیاسی عمل سے خارج ہوں اور اس کے بغیر ایم کیو ایم چل سکے۔ اس کے لیے ہی اس کے مختلف دھڑوں کا انضمام کیا گیا ہے تاکہ ایک اور کوشش کرلی جائے اور بہادر آباد گروپ بھی پوری کوشش کر رہا ہے کہ اپنے ‘مائی باپ’ کو کسی طرح خوش کرسکے کہ دیکھیے ہم نے بانی متحدہ کو مائنس کر کے بھی ووٹ لے لیے ہیں۔
تحریک انصاف کی طرح ایم کیو ایم (بہادرآباد) بھی اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد ہی سے چل رہی ہے۔ اسے آپ الگ کر کے نہ دیکھیے۔ رہی پابندی کے خلاف عدالتی پٹیشن تو وہ پہلے بھی کبھی نہ کبھی سلسلہ رہا اور اس پر ریاست کا سخت عتاب نازل ہوتا رہا ہے، جس پر شاید کچھ اور کسی حد تک چھوٹ مل گئی ہے تو یہ خبریں بھی سوشل میڈیا پھر پھیل رہی ہیں۔
باقی کراچی کے اگلے متوقع انتخابی منظر نامے میں یقینی طور پر پیپلزپارٹی بھی اپنا حصہ کھینچے گی، لیکن آپ نے یہاں کراچی میں عمران خان کی اثر پذیری نظر انداز کردی ہے۔ انھیں بھلے کراچی کے سارے بڑے امیدوار چھوڑ جائیں، لیکن کراچی کی سیاست میں امیدوار ذاتی طور پر زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، جس طرح جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے اپنے اپنے ووٹ ہوتے ہیں، ایسے ہی عمران خان کے نام کا ووٹ بھی موجود ہے، وہ کسی کھمبے کو بھی نام زد کردیں گے تو عمران خان کے نام پر وہ بھی ووٹ لے لے گا اور یقینی طور پر پیپلزپارٹی کے مقابلے میں عمران خان کراچی کی مہاجر بستیوں میں کہیں زیادہ پرکشش ہیں اور اس کے ساتھ میئر کے انتخابات میں کراچی شہر کے مرکزی علاقوں اور زیادہ ووٹروں والی یوسیز جیتنے والی جماعت اسلامی بھی عام انتخابات میں اپنی موجودگی ثابت کرے گی، جسے آپ نے بالکل ہی نظرانداز کر دیا۔ اس لیے امکان ہے کہ عمران خان کے ووٹروں اور جماعت اسلامی کی اثر پذیری بھی عام انتخابات میں اپنے کچھ نہ کچھ نتائج دے گی اور ساتھ میں پیپلزپارٹی بھی یہاں سے پہلے سے زیادہ ہی نشستیں حاصل کرلے گی۔ لیکن یہ سب اسی صورت میں آسانی سے ہو سکے گا کہ جب تک بانی متحدہ کو انتخابی عمل سے باہر رکھا جاسکے گا۔
Categories