تحریر: سعد احمد
22 اگست 2016 کی ٹوٹ پھوٹ کے دوران جب کنوینئر ڈاکٹر فاروق ستار کا دھڑا “بہادر آباد گروپ” سے الگ ہوا تھا اور دونوں جانب سے تند وتیز حملے کیے جا رہے تھے، تب اِدھر فاروق ستار کے مقابلے پر ڈاکٹر خالد مقبو صدیقی کو آگے کیا گیا تھا اور اس دوران ہی کسی تنظیمی پروگرام یا پریس کانفرنس میں کارکنوں کی جانب سے کسی راہ نما کے نام کے نعرے لگ گئے تھے تو فیصل سبزواری نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہمارے کسی شخصیت کے نعرے نہیں ہوں گے، لیکن پھر صورت حال بدلی پراسرار طور پر مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کے ذریعے بنائی جانے والی “پاک سرزمین پارٹی” بہادرآباد گروپ میں دھکیل دی گئی۔ جس کے بعد یہ واضح تھا کہ بتدریج مصطفیٰ کمال ہی کو آگے کیا جائے گا۔ اور لوگوں نے دیکھا کہ کنوینئر تو خالد مقبول ہیں، لیکن 4 سینئر ڈپٹی کنوینئرز میں سے عامر خان تو دور دور ہیں ہی، دوسری طرف ڈاکٹر فاروق ستار اور نسرین جلیل کے ساتھ مصطفیٰ کمال کے سر پر بھی یہ تاج رکھا گیا ہے، لیکن عملاً وہ خالد مقبول سے بھی آگے نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اخبارات خالد مقبول کے ساتھ کمال اور فاروق ستار کو تو جگہ دے دیتے ہیں لیکن انیس قائم خانی کو بطور ڈپٹی کنوینئر بھی جگہ دے دیتے ہیں اور نسرین جلیل کو سینئر ڈپٹی کنوینئر ہونے کے باوجود نظرانداز کیا جاتا ہے۔
کچھ عرصے قبل گورنر سندھ کامران ٹیسوری اور کمال کے مبینہ اختلافات میں بھی دیکھا گیا کہ میڈیا کے لیے کمال کی پی آر بہت کام آئی اور کامران ٹیسوری پر تنقید ہوتی رہی۔ اب 15 اکتوبر کو اورنگی کے جرمن گرائونڈ کے جلسے کے سلسلے میں عملاً پہلی بار مصطفیٰ کمال کی تصویر شایع کردی گئی ہے۔
الطاف حسین کے بعد مصطفیٰ کمال وہ واحد لیڈر ہوگئے ہیں جو ڈپٹی کنوینئر نہ ہونے کے باوجود نمایاں کیے جارہے ہیں، جس سے پتا چل رہا ہے کہ کمال نے اگر اپنی جماعت ختم کی ہے تو بدلے میں پوری ایم کیو ایم (بہادرآباد) پر ان کے حوالے کی جا رہی ہے۔
اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر پی ای سی ایچ ایس میں قائم “پی ایس پی” کا مرکز “پاکستان ہائوس” اب “ایم کیو ایم پاکستان” کا مرکزکہا جا رہا ہے، جس کو ابھی تک صرف انتخابی دفتر کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔
Categories