تحریر: سعد احمد
رواں برس عالمی اردو کانفرنس 30 نومبر تا 3 دسمبر کا اعلان کرکے بہت سے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے، کیوں کہ گذشتہ سال اگلی اردو کانفرنس کے لیے کہا گیا تھا کہ یہ 21 تا 24 دسمبر ہوگی۔
لیکن جب اس سال کی اردو کانفرنس کا اعلان کیا گیا ہے تو پھر وہی تاریخیں رکھی گئی ہیں تقریباً جو پچھلے سال تھیں، جس کے بارے میں خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ کراچی آرٹس کونسل میں حکومت سندھ اور پیپلزپارٹی کے اثر رسوخ کے باعث سندھی ثقافت اور سندھی زبان اور رکھ رکھائو کو فروغ دینے کے لیے ایسا کیا گیا ہے، کیوں کہ دسمبر کی پہلی اتوار کو “یوم سندھی ثقافت” منایا جاتا ہے، پچھلے برس اردو کانفرنس کے آخری روز بادشاہ گر اور شہنشاہ آرٹس کونسل محمد احمد شاہ (تمغہ امتیاز) نے کمال ہوشیاری سے اردو کانفرنس کے اختتام کو “سندھی کلچرل شو” بنا دیا تھا، کراچی شہر کی حساسیت میں اس بات کو شدت سے محسوس کیا گیا تھا اور مہاجر حلقوں کا کہنا تھا کہ اگر اردو زبان کے میلے اور محفل میں بھی اردو زبان کا رنگ نہیں ہوگا تو آخر اردو کا رنگ کہاں ہوگا؟
سندھ لٹریچر فیسٹول تو پہلے ہی سندھی رنگ میں ہوتا ہے، لیکن کراچی لٹریچر پر بھی اسی کی چھاپ ہوتی ہے اور اب “اردو کانفرنس” سے بھی اردو ثقافت کو لات مار کر باہر کردیا گیا ہے۔ اسی پر بس نہیں شاید آرٹس کونسل کے ناخدائوں نے رواں برس کے لیے بے دھیانی میں 2023 کی اردو کانفرنس کی جن تاریخوں کا اعلان کردیا تھا وہ نہ صرف یوم سندھی ثقافت کے بعد کی تھیں، بلکہ اس کے اختتامی روز “یوم مہاجر ثقافت” (24 دسمبر) پڑ رہا تھا، جس کے بعد ظاہر ہے احباب بڑے سٹپٹائے ہوں گے کہ آخر وہ کیوں کہ مہاجر ثقافت اور مہاجر تہذیب کو اپنے اسٹیج پر جگہ دے سکتے ہیں؟ سو انھوں نے یہ چال چلی کہ اس کی تاریخیں بدل دیں اور مبینہ طور پر اسے سندھی ثقافت کے دن اختتام پذیر کیا تاکہ پچھلے برس کی طرح اس بار بھی اردو کانفرنس سے سندھی ثقافت کا بھرپور پرچار ہوسکے۔
ہم نے اس سلسلے میں مختلف ادبی فورم اور ادبی شخصیات کا جائزہ لیا، تو کراچی کے ادبی منظر نامے پر موت کی خاموشی دکھائی دی، کسی کو احساس تک نہیں ہے کہ اردو کے نام پر بھی اردو کی تہذیب فروغ نہیں دی جارہی اور یہ سب کچھ کہیں اور نہیں بلکہ اردو بولنے والوں کے سب سے بڑے تہذیبی مرکز کراچی میں ہو رہا ہے، اور الم یہ ہے کہ اردو والے اس کے افسوس کرنے کے احساس سے بھی بہت پرے بیٹھے ہوئے ہیں، رہے نام اللہ کا۔
Categories