تحریر: رضوان طاہر مبین
پاکستان کی سیاست میں جماعت اسلامی کے بعد اگر کوئی انفرادی سیاسی جماعت ہے یا تھی تو وہ ایم کیو ایم ہی تھی
سو فی صد متوسط طبقے اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اس تحریک کی بربادی یا خرابی ہورے پاکستان کا خسارہ تھا ۔
(بات آگے بڑھانے سے پہلے تصویر کا تعارف :
چیئرمین عظیم طارق، قائد الطاف حسین، سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عمران فاروق، وائس چیئرمین سلیم شہزاد، سینئر وائس چیئرمین طارق جاوید، بانی رکن احمد سلیم صدیقی، سیکرٹری اطلاعات امین الحق، فنانس سیکرٹری ایس ایس ایم طارق)
آج عظیم احمد طارق کی برسی ہے۔ انھیں یکم مئی 1993ء جو ان کی خواب گاہ میں گھس پراسرار انداز میں قتل کردیا گیا۔ ہمارے کچھ حلقے ہر پہلو میں مکمل حقائق کے بہ جائے صرف اپنے مطلب کے پہلو نکال لاتے ہیں، جیسے بعضے لوگ مہاجر سیاست یا ایم کیو ایم کے حوالے سے الطاف مخالفت ہی نمایاں کرتے ہیں ۔
عظیم طارق کے حوالے سے بھی یہ ہورہا ہے کہ کچھ، یک طرفہ یا نامکمل حقائق بیان کیے جاتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ باتیں تقریباً درست بھی ہوتی ہیں
جیسے عظیم طارق کے بارے میں الطاف حسین کا کچھ کہنا یا ان کی مخالفت کرنا
جب کہ یہ حتمی طور پر نہیں پتا الطاف حسین نے کچھ مخالفانہ کلمات عظیم طارق کے لیے کہے یا نہیں۔
صرف یہ کہنا کہ الطاف حسین کے حامیوں نے عظیم طارق سے بدتمیزی کی اور عظیم طارق کوئی الطاف مخالف شخصیت بن گئے تھے درست عمل نہیں۔
اس میں پوری تصویر پیش کرنی چاہیے کہ عظیم احمد طارق 1992ء آپریشن کے دوران ازخود روپوشی ختم کرکے منظر عام پر آگئے تھے اور قیادت سنبھال لی تھی جس کے بعد الطاف حسین نے خود کو قیادت سے الگ کرلیا تھا
اس دوران شدید ابہام پیدا ہو رہا تھا
رابطوں کا فقدان تھا اور عظیم طارق آپریشن کرنے والی شخصیات سے ملاقاتیں کر رہے تھے جس سے لوگوں میں غلط فہمیاں، شکوک یا وسوسے پیدا ہونا فطری تھا
کیوں کہ جناح پور کا الزام لگا کر مائنس الطاف کی کوششیں جاری تھیں،
اس دوران اشتیاق اظہر نے الطاف حسین سے دوبارہ قیادت سنبھالنے کو کہا تھا اور عظیم طارق نے قیادت الطاف حسین کے سپرد بھی کردی تھی ۔
یہ 22 اگست یا 2016ء میں کمال گروپ کی “پی ایس پی” کے ظہور والا منظر تھا کہ عظیم طارق کے ساتھ پیش ہو کر ایم کیو ایم کے لوگ امان پا رہے تھے “نائن زیرو” بند کرکے یہ سب کرنا سوالیہ نشان تھا اور دیکھا جائے تو شکوک کے حوالے سے بالکل درست بھی تھا ۔
عظیم طارق پر ایجنسیوں کے دبائو کا ذکر گول کرکے یک رخی دکھائی جائے تو توازن برقرار نہیں رہتا
یہ بھی بتانا چاہیے کہ روپوشی ختم کرنے کے بعد جب عظیم طارق منظر عام پر آئے تھے تو وہ بہت روتے تھے پریس کانفرنس میں بھی روتے روتے بے ہوش ہوگئے تھے!
اور یہ تو جیو کے صحافی مظہر عباس نے نقل کیا کہ وہ ایجنسیوں سے کہتے تھے کہ مارتے بھی ہو اور رونے بھی نہیں دیتے!
سیاست بے رحم ہوتی ہے اس میں اگر کسی سے محبت کرکے دیکھیں گے تو کبھی حقیقت نہیں ملے گی اور نفرت کرکے دیکھیں گے تو بھی یہی نتائج نکلیں گے۔
ایم کیو ایم کے حوالے سے یہ طرفہ تماشا ہے کہ الطاف مخالف لوگ عظیم طارق کا بت بنا لیں گے صرف اس بنیاد پر کہ مبینہ طور پر یا حالات کا جبر اور دباؤ انھیں کچھ الگ راہ پر لے گیا تھا مگر جو الطاف اس عظیم طارق کو اول دن سے اپنے ساتھ رکھا وہ برا ہے۔ جسے عظیم طارق اپنا قائد کہہ رہے ہیں وہ غلط ہے لیکن عظیم طارق اچھے ہیں ایسا تو نہیں ہوسکتا ۔
ایسا صرف آپ کے خیال آپ کے تصورات کی دنیا میں ممکن ہوسکتا ہے لیکن حقائق اور تاریخ کے منبچ پر ایسا کرکے آپ صرف اپنے تضادات ہی نمایاں کر رہے ہیں ۔
Categories