تحریر: رضوان طاہر مبین
ابھی ‘فیس بک’ پر بھائی محمد دانش نے کراچی کے امن وامان اور بہتری کے واسطے معروف صحافی منصور مانی کی اس شہر میں باہر سے آنے والوں کے ریکارڈ کے حوالے سے کچھ تجاویز مشتہر کی ہیں، لیکن ہمیں خیال آتا ہے کہ
یہ باتیں تو اس وقت کام کی ہیں جب “مالکان” ٹھیک کرنا چاہتے ہوں
یہ بگاڑ انھوں نے بڑی محنت سے کیا ہے اور سوائے آپ کے، دوبارہ نوٹ کیجیے گا سوائے آپ کے اور ہمارے الحمدللہ سب کے سب، دوبارہ یاد کرلیجیے کہ “سب کے سب” مکمل اور 1000 فی صد فائدے میں ہیں
کسی *** ۔**** نے ہمارے واسطے کہا تھا آگے سمندر ہے!
اولادوں نے “ون لائنر” پر پوری فلم بنا کر چلا دی ہے، اب تو شاید انٹرویل بھی ہوچکا، “دی اینڈ” کے نزدیک بھی ہمارے لوگوں کو یہ فلم سمجھ میں ہی نہیں آرہی ہے!!
یا سمجھ میں آ بھی رہی ہے تو اب شکست تسلیم کرلی گئی ہے!
لیکن
مایوس ہو کر کراچی سے نکلنا اور اپنی شکست تسلیم کرنا دراصل انھی کی منشا کی تکمیل ہے۔ ٹھیر کر مزاحمت کرنا ضروری ہے
ایک اور ایک گیارہ والی بات ہے
1857 جیسے حالات کے بعد بھی جب دلی شہر مسمار کردیا تھا ہم لوگ پھر کھڑے ہوگئے تھے
تو ہمیں ایک دوسرے کے حوصلے بڑھانے چاہئیں، مایوسیوں سے نکلنا چاہیے، اب یہ زمین ہماری ہے، یہ شہر ہمارا ہے اور ہمارا ہی رہے گا
ان شااللہ روشنی ضرور ہوگی!!
یہ زمین بھی ہماری ہے،
آؔپ حوصلہ کیجیے، اسی سرزمین پر چند برس کے بدترین ریاستی اور سیاسی جبر سے پہلے کی بھی ایک بہت طویل تاریخ ہے، اسے فراموش کرکے محض 8 برس کے پروپیگنڈے پر ہمت ہاردینا ناانصافی ہوگی۔
ایوب خان سے بھٹو اور پھر 1980 سے 1990 کے عشروں تلک
یہ بھی ہماری ہی قوم تھی، جس نے پہلے یہ ملک بنایا، چلایا اور پھر اپنی شناخت ڈنکے کی چوٹ پر منوائی
بدقسمتی کہہ لیجیے یا اور کچھ کہ ہمیں زیادہ دشمنوں کا سامنا تھا اور کچھ غلطیاں بھی ہوگئیں، اس کا مطلب فل اسٹاپ ہر گز نہیں ہے
سیاہ نصیبی کہ اس ملک میں ہماری قوم کا اس شہر کا صحافی و کالم نگار مردہ، ادیب، شاعر اور قلم کار ضمیر فروش اور باقی بیش تر نام نہاد باشعور جو کچھ لکھ رہا ہے، بول رہا ہے، وہ پرلے درجے کا منافق اور بے غیرت ہے، اس بے شرم طبقے نے اپنی عزت کی نیلامی کو سجا کر اپنے سر کا تاج کرلیا ہے، وہ شاید عصمت فروشی کو مقدم رکھتا ہے، قبر میں لٹکی ٹانگوں کے باوجود چند روزہ “واہ واہ” کے لیے اپنی قوم کے لیے ایک لفظ نہیں کہتا۔۔۔۔
یہ مشکل تو ہے، لیکن اس کے باوجود ہم تو اس شہرت اور نام وری پر اپنے شہر اور اپنی قوم کے اس مقدمے کو افضل رکھتے ہیں، چاہے کسی کو جو سمجھنا ہے سمجھ لے، متعصب کہنا ہے تو یہ ہمارے لیے اب اعزاز ہے۔ وہ دن گئے کہ جب ہم مصلحت کا شکار ہو جایا کرتے تھے اب ہمیں ببانگ دہل بات کرنی ہے، اپنے شہر اور اپنے لوگوں کے لیے!
راہ فرار شکست ہے
ہمیں اس شہر کے نوجوانوں کی امید کو زندہ رکھنا ہے
ان کے لیے ہم امید ہیں، آپ امید ہیں۔ اور بھی دیکھتے جائیے، ایک طویل قطار ہے احباب کی۔
جدوجہد کرتے رہیے، اس سے کبھی دست بردار نہ ہوئیے، ہم ہی کام یاب ہوئے تھے اور ہم پھر کام یاب ہوں گے
روشنی ہوگی، ضرور ہوگی اور ہمیں سے ہوگی!