سمے وار (مانیٹرنگ ڈیسک)
سندھ ہائی کورٹ نے قیام پاکستان کے بعد کلیم کی گئی جائیدادوں کی ملکیت سے متعلق درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے، جس کے مطابق عدالت نے مسلمانوں کی ملکیت کو گروی رکھنے یا ملکیت منتقلی کی جانچ کے لیے ضلعی سطح پر ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں کمیٹیاں تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔ کہا گیا کہ درخواست گزار کے آبا واجداد جے پور کے جاگیردار تھے، انھوں نے قیام پاکستان کے بعد ہجرت کی، انھوں نے ہجرت کے بعد کلیم داخل کیا۔ متعلقہ اداروں نے ان کا کلیم قبول کرتے ہوئے سرٹیفکیٹ جاری کیا۔ 1986ءکی درخواست میں 2005، 2011 اور 2012ءکے فیصلوں کے باوجود ادارے متعلقہ ریکارڈ پیش نہ کرسکے۔ 2005ءسے 2024ءکے دوران درخواست گزار مختلف فورمز سے رجوع کرتا رہا۔ درخواست گزار ان تمام افراد کو چیلنج کرنا چاہتا ہے جنھوں نے اسے اس کے حق سے محروم کیا۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے اہم سوال اٹھائے ہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ قیام پاکستان سے قبل اراضی گروی رکھ کر قرض حاصل کرنا عام تھا۔ ہندو تاجر رقم ادا نہ کرسکنے والے مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کر لیتے تھے۔ اس صورت حال کے پیش نظر لیفٹننٹ گورنر پنجاب چارلس ریواز نے قانون پیش کیا۔ عدالت کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ تقسیم ہند کے بعد دونوں طرف سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔ ان کی سیٹلمنٹ دونوں حکومتن کے لیے بنیادی مسئلہ تھا، سندھ کی زیادہ تر جائیدادیں جو ہندوﺅں کی ملکیت تھیں، وہ اصل میں مسلمانوں کی جانب سے گروی رکھوائی گئی تھیں۔ وہل جائیدادیں واپس نہیں لی جاسکی، تاہم ہندو اس کے مالک نہیں قرار دیے جاسکتے۔ وہ تمام جائیدادٰن اصل مالکان کو واپس دی جانی چاہیے تھیں، حکومت پاکستان کو ایسے تمام افراد کی معاونت کرنی چاہیے، جن کی جائیدادیں متروکہ وقف املاک میں شامل کر دی گئیں۔ اٹھارھویں ترمیم کے بعد زمینوں کے معاملات صوبائی حکومت کو منتقل ہوگئے ہیں۔ عدالت چاہتی ہے کہ حکومت سندھ اہم نکات کو مدنظررکھتے ہوئے متروکہ وقف املاک میں شامل کی جانے والی جائیدادوں کو دیکھے۔ درخواست گزار کے اٹھائے اعتراضات رٹ دائرہ اختیار کے تحت حل نہیں کیا جاسکتی۔ تاہم درخواست گزار قانون کے تحت حل سے فائدہ اٹھانے کے لیے آزاد ہے۔
Categories